لاہور( ویب ڈیسک) امریکہ کی جانب سے ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ وہ افغانستان سے بڑی تعداد میں اپنے فوجیوں کو واپس بلانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ امریکی فوجی افغان حکومت کو طالبان اور دوسرے عسکریت پسند گروہوں کے خلاف لڑنے میں امداد فراہم کر رہے ہیں۔طالبان افغانستان کا اہم متحارب گروپ ہے جس کے 60 ہزار جنگجو ہیں اور سنہ 2001 کے بعد یعنی امریکی اتحاد کی جانب سے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد فی الحال افغانستان میں سب سے زیادہ علاقے پر اس کا کنٹرول ہے۔ کابل کی حکومت کو امریکہ کی جانب سے فوجی اور مالی معاونت کے باوجود یہ جنگ زیادہ شدید اور پیچیدہ ہوتی گئی ہے۔ اس سطح پر بغاوت کو قائم رکھنے کے لیے ملک کے اندر اور باہر دونوں جانب سے بہت زیادہ فنڈنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو طالبان کس طرح اپنے لیے حمایت حاصل کرتا ہے؟ طالبان کتنا دولت مند ہے؟ طالبان نے سنہ 1996 سے 2001 تک افغانستان پر حکومت کی اور وہاں شریعہ قانون کو سختی کے ساتھ نافذ کیا۔ اقتدار سے ہٹنے کے بعد سے وہ طویل عرصے سے ملک بھر میں بغاوت کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ فنڈنگ کے ذرائع کا پتہ چلانا معلومات پر منبی اندازہ لگانا ہے کیونکہ خفیہ طور پر کام کرنے والی عسکری تنظیمیں اپنے آمد و خرچ کی اشاعت نہیں کرتیں لیکن افغانستان کے اندر اور ملک سے باہر بی بی سی نے جو انٹرویوز کیے ان سے ان کے پیچیدہ مالی نیٹ ورک اور ٹیکس کے نظام کا اندازہ ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی بغاوت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سنہ 2011 کے بعد اس گروپ کی آمدن کا اندازہ 40 کروڑ امریکی ڈالر لگایا جاتا ہے۔ تاہم کہا جاتا ہے کہ اس میں حالیہ دنوں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور یہ ڈیڑھ ارب امریکی ڈالر تک ہو سکتا ہے۔ افغان اور امریکی حکومتوں نے ان نیٹ ورکس پر لگام لگانے کی کوشش کی ہے۔ ایک سال سے کچھ زیادہ عرصے قبل امریکی فوج نے منشیات کے کارخانوں پر بمباری کی اپنی نئی حکمت عملی پر عمل کیا ہے۔ بہر حال طالبان کی آمدن کے ذرائع منشیات کی تجارت کے ماسوا بھی بہت ہیں۔ سنہ 2012 میں اقوام متحدہ نے اس عام تصور کے خلاف خبردار کیا تھا کہ افغانستان میں پوست کی معیشت طالبان کی آمدن کا اہم ترین ذریعہ ہے۔