کراچی (ویب ڈیسک) زلزلے کے نتیجے میں زمین کی اندرونی پرت (ٹیکٹونک پلیٹس) کے ٹوٹنے اور اس عمل سے جڑی سرگرمیوں کے نتیجے میں سمندر کا پانی بھاری مقدار میں کرۂ ارض میں 20؍ میل تک گہرائی میں جا رہا ہے۔ سائنسدانوں کو معلوم نہیں کہ یہ سلسلہ کب رکے گا،اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ سائنس میگزین اور لائیو سائنس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر کے سمندروں کے گہرے ترین مقام ماریانہ ٹرینچ میں زلزلہ پیما ماہرین کی ٹیم نے ایک نئی تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ زمین کے اندرونی حصے گزشتہ اندازوں کے مقابلے میں پانی کی تین گنا زیادہ مقدار اپنی جانب کھینچ رہے ہیں۔ آسان الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ سمندر کی تہہ میں زلزلے کے نتیجے میں آنے والی دراڑوں سے پانی بہہ کر زمین کے اندر جا رہا ہے۔ نئے تخمینوں سے معلوم ہوا ہے کہ یہ مقدار ہر دس لاکھ سال میں تین ارب ٹیرا گرام پانی کے برابر ہے، ایک ٹیرا گرام پانی ایک ارب کلوگرام کے مساوی ہوتا ہے۔ واشنگٹن یونیورسٹی کے سرکردہ محقق چین کائی کہتے ہیں کہ لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ سبڈکشن زونز پانی زمین میں کھینچ کر لے جاتے ہیں لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ آخر کتنا پانی اندر جا رہا ہے۔ نیچر نامی جریدے میں شائع ہونے والی نئی تحقیق میں محققین نے زلزلہ پیما مشینوں کی مدد سے ایک سال تک کی زمین کی تھرتھراہٹ اور لرزنے کا ڈیٹا حاصل کیا۔ زلزلہ پیما 19؍ مشینیں ماریانہ ٹرینچ کے قرب و جوار میں نصب کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ، ماہرین نے دیگر سمندر میں دیگر مقامات پر نصب کردہ زلزلہ پیما مشینوں ڈیٹا کا سہارا بھی لیا۔ اس سے ماہرین کو اس بات کا جائزہ لینے میں مدد ملی کہ بحرالکاہل میں ٹیکٹونک پلیٹوں کے ٹرینچ میں مڑنے کے نتیجے میں کیا ہوتا ہے۔ نیشنل سائنس فائونڈ یشن ڈویژن آف اوشن سائنسز کی پروگرام ڈائریکٹر کینڈنس او برائن کہتی ہیں کہ اس تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ سبڈکشن زونز کی وجہ سے زمین کی گہرائی میں کئی میلوں تک پانی جاتا ہے، اور یہ گزشتہ اندازوں سے زیادہ پانی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی واٹر سائیکل میں سبڈکشن زونز کتنی اہمیت کے حامل ہیں۔ ٹیم کا کہنا ہے کہ پلیٹوں کے زمین کی گہرائی میں جانے اور اوپری پرت کے قریب موجود فالٹ لائنوں کے پاس موجود زبردست دبائو اور درجہ حرارت کی صورتحال اور کیمیائی تبدیلیوں کی وجہ سے پانی غیر مائع شکل اختیار کرتے ہوئے سمندر کی تہہ میں موجود سخت پتھروں اور چٹانوں میں قید ہو جاتا ہے۔ سائنس ڈیلی کی رپورٹ کے مطابق، ہزاروں برسوں سے سمندروں میں پانی کی سطح معتدل رہی ہے اور اس میں کبھی اضافہ نہیں ہوا، جس کا مطلب یہ ہے کہ جو پانی زمین کی تہہ میں سمندروں سے ہوتے ہوئے جا رہا ہے، وہ کہیں نہ کہیں سے باہر بھی نکلتا ہوگا، یہی وجہ ہے کہ پانی کا لیول بدستور برقرار ہے۔ تاہم، مقدار کے حوالے سے معلومات غیر یقینی ہیں۔ سائنس کے مایہ ناز پروفیسر ڈگ وائنز کا کہنا ہے کہ اس بات کا شبہ ہے کہ ماریانہ سے جانے والا پانی ممکنہ طور پر الاسکا یا پھر جنوبی امریکی سمندروں سے نکلتا ہوگا لیکن کسی نے بھی آج تک سمندر کی تہہ میں 20؍ میل سے زیادہ گہرائی میں جا کر تحقیق نہیں کی اور یہی کچھ ہم ماریانہ ٹرینچ کے حوالے سے تلاش کر رہے ہیں۔اگرچہ یہ تو معلوم تھا کہ سبڈکشن زونز میں موجود پلیٹیں پانی کو قید رکھتی ہیں لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ آخر پانی کی مقدار کتنی ہوتی ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ تحقیق کا نیا طریقہ زیادہ پائیدار ہے، ارضیاتی تصاویر سے معلوم ہوتا ہے کہ ماریانہ ٹرینچ میں موجود آبیدہ پتھر سمندر کی تہہ سے 20؍ میل نیچے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ ماریانہ ٹرینچ دنیا بھر کے سمندروں میں سب سے گہرا ترین مقام ہے جو مغربی بحرالکاہل میں ماریانہ جزیرے کے مشرق میں واقع ہے۔ ٹرینچ بنیادی طور پر ایک کھائی ہے جو 1580؍ میل (2550؍ کلومیٹر) طویل ہے اور اس کی چوڑائی 69؍ کلومیٹر ہے۔ سطح سمندر سے ماریانہ ٹرینچ کے آخری حصے تک مجموعی فاصلہ 11؍ کلومیٹر ہے جس کا نام چیلنجر ڈیپ رکھا گیا ہے۔ اس مقام تک جانے کیلئے پانی کا دبائو اتنا ہوتا ہے جتنا آپ اندازہ کریں کہ 100؍ بالغ ہاتھی انسان کے سر پر کھڑے کیے جائیں، جبکہ درجہ حرارت نقطہ انجماد سے ایک سے چار ڈگری تک نیچے ہوتا ہے۔