لاہور: رمضان کے آتے ہی افطار و سحر کا ذکر شروع ہو جاتا ہے۔ دنیا بھر میں رہنے والے مسلمان رمضان کا احترام کرتے ہوئے روزہ رکھتے ہیں، خواتین خانہ روزہ داری کے ساتھ افطار کے اہتمام میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ کچھ پکوان اور غذائیں ایسی ہیں جو ماہ رمضان میں ہی بنائی جاتی ہیں اور لوگ سال بھر ان کے لئے رمضان کا انتظار کرتے ہیں۔ جنہوں نے سالہا سال دہلی کا تمدن دیکھا وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ افطار کا دسترخوان خاتون خانہ کی خانہ داری اور سلیقہ مندی کا نمونہ ہوا کرتا تھا۔ کجھور، چٹپٹی دال، شامی کباب، قلمی بڑے، پالک کے پتے، دہی کے پھلکے، پھلوں کی چاٹ، شربت کے کٹورے وغیرہ۔ افطار پہلے نزدیکی مسجد میں بھیجا جاتا تھا، پھر دسترخوان کی زینت بنتا تھا۔ اذان ہوتے ہی بچے شور مچاتے گلی گلی دوڑ جاتے۔ مؤذن کی آواز پٹاخوں، ڈھول کی تھاپ میں گم ہو جاتی، منارے پر لگی روشنی افطار کے وقت کا اعلان کرتی تھی۔ روزے والے روزہ کھولو، دنیا بھر میں افطار کے مختلف مناظر ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے ذکر مقدس شہر مکہ کا ہوتا ہے۔ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی مکہ میں زائرین کی تعداد بڑھنی شروع ہوتی ہے اور لوگ کعبے کے سامنے بیٹھ کر روزہ افطار کرنا زندگی کا سب سے بڑا لمحہ سمجھتے ہیں۔ مکہ میں بچھائے جانے والے دسترخوان کی لمبائی 12 کلو میٹر ہے جو کعبہ کے گرد لگایا جاتا ہے اور جہاں روزانہ لاکھوں روزہ دار افطار کرتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ان پر دس لاکھ سعودی ریال صرف ہوتے ہیں
یہ دنیا کی سب سے بڑی افطاری ہے جو صرف دس منٹ میں سمٹ جاتی ہے اور فرش دھل کر صاف ہو جاتا ہے۔ روزانہ 50 لاکھ کھجوریں اور 20 لاکھ آب زمزم کی بوتلیں افطار کے دسترخوان پر سجائی جاتی ہیں۔ انڈونیشیا میں مسلمانوں کی آبادی 90 فیصد ہے۔ یہاں کے لوگ خداترس کے مذہب پرست کے ساتھ صلح کل ہیں۔ انڈونیشیا میں افطار کرنے کو ‘بربوکا پواسا’ کہتے ہیں۔ شام ہوتے ہی انڈونیشیا میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ روشنی سے شہر جگمگا اٹھتے ہیں اور بازاروں کی رونق دوبالا ہو جاتی ہے۔ یہاں بھی لوگ عام طور پر کھجور سے افطار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی میٹھی نرم چیز سے بھی افطار شروع کرتے ہیں تاکہ دن بھر کا بھوکا پیٹ بغاوت نہ کردے۔ کھجور کے ساتھ ہی اونڈے اونڈے کی گولیاں کھائی جاتی ہیں۔ یہ وہاں رمضان کی خاص الخاص غذا کہی جاتی ہے۔ پاندان کے پتے (جو کیوڑہ کے پتے کے مشابہ ہیں) کو پیس کر اس میں کھجور کا شیرہ ملا کر چھوٹی چھوٹی گولیاں بنائی جاتی ہیں اور اس پر تازہ ناریل کے تراشے چھڑک دیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پلاسٹک کی تھیلیوں میں نوڈلز اور نشاستہ کی گولیاں پاندان کے شربت کے ساتھ بازار میں دستیاب ہوتی ہیں
افطار کے دسترخوان پر بیف سموسہ، بالا بالا (ہلکی تلی موسمی سبزیاں)، می گورینگ (مصالحہ دار نوڈلز)، کولک (شکرقندی اور کیلے کے ٹکڑے ناریل کے دودھ اور کچھوڑ کے پیڑے کے ساتھ)، مرتبک اور موسمی پھل وغیرہ ہوتے ہیں۔ ملائیشیا میں بھی سحر و افطار کے مذہبی اور اجتماعی پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں۔ یہاں بھی افطار کو ‘بربوکا پواسا’ کہتے ہیں۔ رمضان بھر یہاں کی مساجد میں غریبوں کے افطار اور کھانے کا انتظام بڑی فراخدلی سے کرتے ہیں۔ افطار کے دسترخوان پر گنے کا رس، سویابین، دودھ میں نشاستہ کے رنگین ٹکڑے، مختلف قسم کے ساتے، لمبوک (ناریل کے دودھ میں گوشت اور ہلکے مسالے میں پکا ہوا دلیہ)، مرغ اور چاول پلاؤ، مرتبک، ببولا مارک (چاول کا روایتی پکوان) ہوتے ہیں۔ افطار کا سب سے بڑا اہتمام کوالالمپور میں ہوتا ہے جہاں روزے کی فضیلت اور مساوات کا ذکر ہوتا ہے۔ اس میں تقریباً 30 ہزار لوگ شامل ہوتے ہیں اور یہ ملائیشیا کا سب سے بڑا افطار ہے جس میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیں۔ مصر میں رمضان کے ساتھ فانوس، قندیل اور چراغ کی دلچسپ روایت جڑی ہے۔ روشنی کے یہ منبع ماہ رمضان سے ایسے جڑے ہیں کہ اس ماہ کے آغاز سے قبل ہی اس کی خرید و فروخت شروع ہو جاتی ہے جس طرح مسیحی بیت اللحم کا ستارہ اپنے گھروں کی کھڑکیوں پر ٹانگتے ہیں اسی طرح مصری خوبصورت فانوس اپنے گھروں میں لگاتے ہیں۔ حکایت ہے کہ صلاح الدین یوسف (1193-1174) کے دور میں فانوس کا چلن شروع ہوا تھا لیکن بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ سن 968 عیسوی میں جب سلطان مفرالدین 15 رمضان کو مصر میں داخل ہوئے تو فانوس اور قندیل کی روشنی میں ان کا استقبال ہوا۔ مصر میں افطار کے تھال سجائے جاتے ہیں تاکہ ہر شخص ہر طرح کی غذا کا لطف اٹھا سکے۔ کجھور کے ساتھ خشک میوے انجیر اور کشمش، زرد آلو کے سلاد، رمضان کا مخصوص شربت امرالدین کونافا وہاں افطار کی خاص ڈش ہیں۔ مصر کی ایک شہزادی کو روزہ سخت امتحان لگتا تھا وہ بھوک سے بے حال ہو جاتی تھی پھر ایک ڈاکٹر نے کونافا بنانے کے ترکیب بتائی کہا کہ سحر میں کھانے سے دن بھر بھوک کا احساس نہیں ہوگا۔ تب سے کونافا افطار و سحر دونوں دسترخوان پر موجود ہوتا ہے