امریکہ (ویب ڈیسک ) 107سال قبل دنیا کی بحری جہازوں کی تاریخ کا ایک مشہور ترین اور بڑا حادثہ اس وقت پیش آیا جب 15 اپریل 1912 کو رات کے 2 بج کر 20 منٹ پر ٹائٹینک نامی جہاز ایک برفانی تودے یا آئس برگ سے ٹکرا کر نیو فاﺅنڈ لینڈ کے ساحل کے قریب ڈوب گیا۔ اس بحری جہاز کو اس وقت کا پرتعیش ترین اور محفوظ ترین جہاز بلکہ کبھی نہ ڈوبنے والا جہاز قرار دیا گیا تھا مگر اس کے ڈوبنے سے ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔اس اپنے عہد میں دنیا کا سب سے بڑا مسافر جہاز تھا جو اپنے پہلے سفر پر ساﺅتھ ہیمپٹن، برطانیہ سے نیویارک کے لیے روانہ ہوا۔یہ جہاز 882 فٹ لمبا اور 90 فٹ سے زیادہ اونچا تھا اور اس کا وزن 53 ہزار ٹن تھا۔اس حادثے پر لاتعداد فلمیں، کتابیں اور مضامین لکھے گئے اور دنیا بھر میں لوگ اس حادثے کے بارے میں کافی کچھ جانتے ہیں (جیمز کیمرون کی فلم کی مہربانی سے)مگر پھر بھی اس جہاز اور مسافروں کے بارے میں متعدد راز ایسے ہیں، جو دنیا بھر کے لوگوں کو حیران کرسکتے ہیں۔جیسے ایک چیز جو اکثر افراد کو معلوم نہیں وہ یہ ہے کہ ٹائٹینک حادثے میں بچنے والی میلوینا ڈین، سب سے آخر میں انتقال کرنے والی شخصیت تھی، جن کا انتقال 2009 میں ہوا، حادثے کے وقت ان کی عمر 2 ماہ تھی۔ٹائٹینک کے بارے وہ سب کچھ جانیں جو اب بھی لوگوں کو چونکانے کے لیے کافی ہے۔جہاز ڈوبنے کے ایک ماہ بعد ہی پہلی فلخاموش فلموں کی امریکی اداکارہ ڈورتھی گبسن اس سانحے میں بچ جانے والے 700 افراد میں شامل تھیں، ڈوبنے سے بچنے کے بعد نیویارک پہنچنے پر انہوں نے فوری طور پر ایک فلم ‘سیوڈ فرام دی ٹائٹینک’ بنانا شروع کردی، جو اس جہاز کے ڈوبنے پر بننے والی پہلی فلم تھی اور مئی 1912 میں ریلیز ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اس فلم میں جو ملبوسات اور جوتے پہنے، وہ وہی تھی جو جہاز ڈوبنے کے دوران ان کے جسم پر تھے۔ یہ فلم کامیاب بھی ثابت ہوئی مگر اب اس کا کوئی پرنٹ نہیں، کیونکہ واحد پرنٹ ایک آتشزدگی میں جل گیا تھا۔تھرڈ کلاس مسافروں کا برا حالویسے مجموعی طور پر ٹائٹینک میں تھرڈ کلاس کیبن کے مسافروں کے لیے جو رہائشی سہولیات تھی، وہ اس زمانے کے دیگر جہازوں کے مقابلے میں کافی بہتر تھیں، مگر پھر بھی انتہائی بری تھیں، تھرڈ کلاس کیبنز میں سفر کرنے والوں کی مجموعی تعداد 700 سے ایک ہزار کے درمیان تھیں اور ان کے پاس نہانے کے لیے محض 2 باتھ ٹب تھے۔سازندوں کی ہمتدرحقیقت ٹائٹینک کے آراکسٹرا میں شامل تمام افراد کو ہیرو قرار دیا گیا، کیونکہ وہ آئس برگ سے ٹکر کے بعد بھی 2 گھنٹے سے زائد وقت تک موسیقی بجاتے رہے اور یہ سلسلہ اس وقت ختم ہوا جب وہ سب ڈوب گئے، اس کا مقصد مسافروں کو پرسکون رکھنے کی کوشش تھی۔حادثے کی ایک بڑی وجہدرحقیقت جہاز میں سوار عملہ آئس برگ کو بروقت اس لیے نہیں دیکھ سکا کیونکہ ان کے پاس دوربینیں ہی نہیں تھیں، اور نہ ہونے کی وجہ بھی حیران کن ہے۔ درحقیقت جہاز میں دوربینیں تھیں اور عملے سے بہت زیادہ دور بھی نہیں تھیں، مگر وہ استعمال نہیں ہوسکتی تھیں، کیونکہ جہاز کے سیکنڈ آفیسر کو آخری وقت میں بدل دیا گیا تھا اور وہ اس لاکر کی چابی عملے کو دینا بھول گیا، جس میں دوربینیں رکھی گئی تھیں۔عمیر کے وقت سے ہی حادثاتٹائٹینک کی تیاری کے وقت سے ہی حادثات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور اسے بنانے کے دوران 8 افراد مختلف حادثات میں ہلاک ہوئے، جن میں سے اب 5 کے نام ہی لوگوں کو معلوم ہیں، مگر ان سب کی بعد از مرگ یادگار 2012 میں بلفاسٹ میں تیار کی گئی۔دنیا کے امیر ترین شخص کی موتاس جہاز میں جون جیکب آسٹر فورتھ بھی سوار تھے، جو اس دور میں دنیا کے امیر ترین شخص سمجھے جاتے تھے، جو 15 کروڑ ڈالرز (موجودہ عہد کے ساڑھے 3 ارب ڈالرز) کے مالک تھے ۔ وہ اپنی نئی شادی کے بعد ہنی مون منا کر واپس امریکا لوٹ رہے تھے اور ڈوب کر مرگئے، جون جیکب آسٹر ان چند افراد میں سے ایک ہیں، جن کی لاشیں حادثے کے بعد دریافت کی جاسکیں اور اس وقت ان کی جیب سے لگ بھگ ڈھائی ہزار ڈالرز ملے۔اخبارات کی غلط رپورٹنگاس حادثے کی خبر شائع کرنے کی دوڑ میں متعدد اخبارات نے متاثرہ خاندانوں کو یہ غلط اطلاعات پہنچائیں جہاز ڈوبنے سے کوئی مسافر ہلاک نہیں ہوا۔ اس وقت کے مشہور اخبار دی ورلڈ نے ہلاکتیں نہ ہونے کی رپورٹ شائع کی، ڈیلی میل اور بلفاسٹ ٹیلیگراف نے بھی ایسی ہی خبریں لگائیں۔ اس کے مقابلے میں امریکی اخبارات نے وقت کے فرق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کافی حد تک درست شہ سرخیاں لگائیں، جیسے نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ آئس برگ سے ٹکرانے کے 4 بعد ٹائٹینک ڈوب گیا، 866 کو کارپیتھا نے بچا، ممکنہ طور پر 1250 ڈوب گئے۔خوش قسمت خاتونایک نرس وائلٹ جیسپ کو اس دنیا کی خوش قسمت ترین اور بدقسمت ترین خاتون قرار دیا گیا جو کہ ٹائٹینک کے حادثے میں بچنے میں کامیاب رہیں، اس وقت ان کی عمر 25 سال تھی، تاہم اس حادثے کے بعد بھی وہ ایک بحری جہاز بریٹینیکا (اسے میڈیا نے ٹائٹینک کا نام دیا تھا) میں کام جاری رکھا اور 1916 میں یہ جہاز ایک جرمن یو بوٹ کی لگائے بارودی سرنگ کا شکار ہوکر ڈوب گیا، تاہم وائلٹ جیسپ ایک بار پھر بچ گئیں، مگر اس بار سر کی سنگین انجری کا سامنا ہوا جس نے ان کی پوری زندگی کو متاثر کیا۔زندہ بچنے کے لیے عجیب کوششایسی افواہیں ہیں کہ کچھ مردوں نے زندہ بچنے کے لیے خواتین کا روپ دھار لیا تاکہ انہیں لائف بوٹس میں جگہ مل سکے، ٹائٹینک کے حادثے میں بچ جانے والے ایسے ایک جوڑے کے درمیان ان افواہوں کے نتیجے میں 1916 میں طلاق بھی ہوگئی۔ ڈکنسن اور ہیلن بشپ نامی جوڑے کے درمیان یہ عجیب واقعہ پیش آیا تھا اور ڈکنسن نے امریکی سینیٹ میں اپنے بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ ایسا کوئی آفیشل آرڈر نہیں تھا کہ لائف بوٹس میں صرف خواتین اور بچوں کو ہی جگہ دی جانی چاہیے، متعدد مرد مسافروں کے بارے میں یہ افواہیں ان کی زندگی میں گردش کرتی رہیں۔لوگوں کے لیے قربانی دینے والے1958 کی فلم کا ایک اسکرین شاٹٹائٹینک میں سوار تمام انجنیئرز نے مسافروں کو بچانے کے لیے اپنی جان قربان کی، درحقیقت اس جہاز کی روشنیاں اس وقت ہی بند ہوئیں جب وہ مکمل طور پر ڈوب گیا، اور ایسا اس میں سوار انجنیئرز کی جانب سے تمام افراد کو بچانے کے لیے بلاتھکان کوششوں کے نتیجے میں ہوا، جو جہاز کے ڈوبنے کے دوران بھی پیچھے رہ کر بجلی اور پمپس چلاتے رہے۔ انہوں نے ریڈیو کو بھی چلائے رکھا اور اس سے مدد کے سگنلز جہاز ڈوبنے سے چند منٹ تک جاری دیئے گئے، 25 میں سے ایک بھی انجنیئر زندہ نہیں بچا۔خوش قسمت بچےایڈمنڈ اور مائیکل نوراٹیل نامی بھائی اس حادثے کے وقت بالترتیب 2 اور 4 سال کے تھے، اس جہاز میں وہ اپنے والد مائیکل سنیئر کے ہمراہ سوار ہوئے تھے، جو انہیں ماں سے اغوا کرکے اس توقع کے ساتھ لے آیا تھا کہ اس کی ناراض بیوی بھی اس کا تعاقب کرے گی اور وہ امریکا میں نئی زندگی کا آغاز کرسکیں گے۔ ان بچوں کو باپ نے ایک لائف بوٹ میں سوار کرادیا اور خود ڈوب گیا، یہ بچے انگلش نہیں بول سکتے تھے تو انہیں حادثے میں بچ جانے والے ایک فرنچ بولنے والے شخص نے گود لے لیا، مگر حکام نے حادثے کے ایک ماہ بعد تلاش کرکے بچوں کو اس کے حوالے کیا۔حادثے کی پیشگوئی 14 سال قبل کی گئی تھیایک امریکی مصنف مورگن رابرٹسن نے 1898 یعنی ٹائٹینک کے حادثے سے 12 سال قبل اپنے ایک ناول ‘ Futility ‘ اس طرح کے حادثے کی پیشگوئی کی تھی، یہ ناول ایک جہاز ٹائٹن کے ڈوبنے کے گرد گھومتا تھا، اور ناول میں جو تفصیلات دی گئی تھیں وہ حیران کن حد تک ٹائٹینک کے ڈوبنے سے مماثلت رکھتی ہیں۔ پہلی چیز تو جہازوں کے نام تھے، جن میں محض 2 حروف کا فرق تھا یعینی ٹائٹن اور ٹائٹینک، ناول میں جہاز کا جو سائز تھا وہ بھی ٹائٹینک جیسا تھا، ناول میں بھی جہاز اپریل میں ڈوبتا ہےجبکہ دونوں جہازوں کو کبھی نہ ڈوبنے والا قرار دیا گیا تھا، اور ناول کی طرح ٹائٹینک میں بھی لائف بوٹس کی تعداد بہت کم تھی۔ مصنف نے بعد میں کہا تھا کہ دونوں کے درمیان اتنی مماثلت کی وجہ ان کے پاس بہت زیادہ معلومات ہونا تھی ‘میں جانتا تھا کہ میں کیا لکھ رہا ہوں اور بس’۔ٹائٹینک کے قریب موجود جہاز بھی بعد میں ڈوب گیاایس ایس کیلیفورنیا نامی جہاز ٹائٹینک کو پیش آنے والے حادثے کے وقت چند کلومیٹر ہی دور تھا مگر وہ بدقسمت افراد کی کوئی مدد نہیں کرسکا، کیونکہ ایس ایس کیلیفورنیا کا ریڈیو رات کو اس وقت بند کردیا گیا تھا جب ٹائٹینک آئس برگ سے ٹکرایا، اسی طرح جب کیلیفورنیا کے کپتان کو ٹائٹینک سے پھینکے جانے والی روشنیوں کے بعد جگایا گیا، تو اس نے خیال کیا کہ وہ تو محض آتشبازی ہے، اور جب ایس او پیغام ان تک پہنچا تو بہت تاخیر ہوچکی تھی۔ حیران کن طور پر ایس ایس کیلیفورنیا بھی زیادہ عرصے تک تیر نہیں سکا اور نومبر 1915 میں جرمن آبدوز کے تارپیڈو سے ٹکرا کر ڈوب گیا۔جہاز کے ساتھ ڈوبنے کے باوجود بچ جانے والی واحد خاتونروڈا میری ایبٹ جہاز کے ڈیک پر آخر تک اپنے 2 بیٹوں کے ساتھ موجود رہی تھیں اور یہ تینوں جہاز کے ساتھ پانی میں چلے گئے، خاتون کے دونوں بیٹے سمندر میں ڈوب گئے مگر انہیں ایک لائف بوٹ نے نکال لیا۔فلم کی لاگت جہاز کی تعمیر سے بھی زیادہٹائٹینک جب تعمیر ہوا تو 1912 میں اس کی لاگت 75 لاکھ ڈالرز تھی جو موجودہ عہد میں 19 کروڑ ڈالرز بنتی ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ جیمز کیمرون کی 1997 میں ریلیز ہونے والی بلاک بسٹر فلم ٹائٹینک کا بجٹ 20 کروڑ ڈالرز تھا جو 2018 میں افراط زر کے مطابق 36 کروڑ ڈالرز بنتا ہے۔جی ہاں ٹائٹینک اپنے عہد میں دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز تھا اور یہ بھی اندازہ تھا کہ وہ کہاں ڈوبا ہے مگر 73 سال تک اس کا ملبہ دریافت کرنے کی تمام تر کوششیں ناکام ثابت ہوئیں اور اسے 1985 میں مبینہ طور پر ایک خفیہ سرد جنگ کے نیوی مشن کے دوران دریافت کیا گیا۔دریافت کے بعد ایک متنازع مسئلے کی تصدیق ہوئیکم از کم 15 عینی شاہد موجود ہیں جن کا کہنا تھا کہ ڈوبنے سے قبل ٹائٹینک 2 ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا تھا اور پھر سمندر کی گود میں گیا، مگر انہیں نظرانداز کردیا گیا، بلکہ سرکاری امریکی تحقیقات میں کہا گیا کہ پورا جہاز ڈوبا تھا۔ یہ تنازع 73 سال تک برقرار رہا اور پھر اس کا ملبہ ملنے کے بعد ثابت ہوا کہ یہ واقعی 2 ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔ڈوبتے ہوئے فرسٹ کلاس مسافروں کے تحفظ کو ترجیحاس حادثے میں ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے جن میں فرسٹ کلاس کی محض 4 خواتین شامل تھیں، اس کے مقابلے میں تھرڈ کلاس کی 89 اور 387 مرد سمندر کی نذر ہوگئے۔ فرسٹ کلاس کی ڈوبنے والی 4 میں سے ایک خاتون اس لیے ڈوبی کیونکہ اس نے اپنے کتوں کو پیچھے چھوڑنے سے انکار کردیا تھا۔ایک لاش کی شناخت سو سال بعد ہوئیڈیڑھ ہزار سے زائد ہلاکتوں میں سے صرف 300 لاشیں ہی دریافت کی جاسکی تھیں،جن میں سے ایک 19 ماہ کا بچہ بھی شامل تھا، جس کو اس یادگاری قبر میں دفن کیا گیا جو اس حادثے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے لیے تیار کی گئی تھی اور اس پر نامعلوم بچے کے نام سے کتبہ بھی لگایا گیا۔ اس بچے کی لاش کی 3 بار غلط شناخت ہوئی مگر 2011 مین جاکر میوزیم کو عطیہ کیے گئے اس کے جوتے اور ڈی این اے ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ یہ سڈنی گڈون ہے۔حادثے کا باعث بننے والا ممکنہ آئس برگیہ اوپر تصویر 15 اپریل 1912 کو لی گئی تھی، یعنی ٹائٹینک کے ڈوبنے کے بعد اگلی صبح، ایک بحری جہاز ایس ایس پرنز ایڈلبرٹ میں سوار ایک فوٹوگرافر نے اسے کھینچا، جس کو ٹائٹینک کے ڈوبنے کا علم بھی نہیں تھا، مگر اس نے ٹکراﺅ کی علامات کو دیکھا جن میں آئس برگ پر سرخ پینٹ کی موجودگی بھی شامل ہے، جس کا مطلب تھا کہ گزشتہ 12 گھنٹون کے دوران اس سے کوئی جہاز ٹکرایا ہے۔