سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ وہ واحد صحابی ہیں جن کا نام قرآن مجید میں آیا ہے۔ آپ کو بچپن میں اغوا کر کے غلام بنا لیا گیا تھا۔ کئی ہاتھوں سے بکتے ہوئے آپ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے۔ اس دوران آپ کے والد کو بھی آپ کی خبر پہنچ گئی۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو منہ مانگی رقم کی آفر کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، “اگر زید تمہارےساتھ جانا چاہے تو میں کوئی رقم نہ لوں گا۔” زید نے اپنے والدین کی بجائےحضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا برتاؤ اپنے ملازموں کے ساتھ بھی کیسا ہوتا ہوگا۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زید رضی اللہ عنہ کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نبوت کا اعلان فرمایا تو حضرت خدیجہ، علی اور ابوبکر رضی اللہ عنہم کے بعد آپ چوتھے شخص تھے جو ایمان لائے۔ طائف کے سفر میں زید حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے۔ جب وہاں کے اوباشوں نے آپ پر سنگ باری کی توزید نے یہ پتھر اپنے جسم پر روکے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کی شادی اپنی پھوپھی زاد بہن زینب رضی اللہ عنہا سے کر دی تھی۔ ان میں نباہ نہ ہو سکا اور طلاق ہو گئی۔ دور جاہلیت کی یہ رسم تھی کہ منہ بولے بیٹوں کا معاملہ سگی اولاد کی طرح کیا جاتا اور ان کی طلاق یافتہ بیویوں سے نکاح حرام سمجھا جاتا۔ اس رسم کے بہت سے سنگین معاشرتی نتائج نکل رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حکم دیا کہ آپ حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے شادی کر لیں تاکہ اس رسم کا خاتمہ ہو۔ اسی تناظر میں سیدنا زید رضی اللہ عنہ کا ذکر سورۃ احزاب میں آیا ہے۔