ریاض (ویب ڈیسک ) سعودی عرب کی جانب سے بیان کیا جانے والا دعوٰی اس وقت غلط ثابت ہوا جب مقتول سعودی صحافیجمال خاشقجی کے جسمانی اعضاء سعودی قونصلر جنرل کے استنبول میں واقع گھر سے مل گئے اور یوں 2 اکتوبر کو جمال خاشقجی کی سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد سے شروع ہونے والی داستان کا ڈراپ سین بھی ہوگیا۔ خاشقجی کا قتل اور اس کا طریقہ کار تو اب ایک کھلی حقیقت کے طور پر سامنے آچکا ہے، اور سعودی حکومت قتل کا اعتراف بھی کرچکی ہے۔ سعودی حکومت نے اپنے 15 اہلکاروں کو گرفتار جبکہ ولی عہد محمد بن سلمان کے انتہائی قریب 2 اعلیٰ اہلکاروں کو برطرف بھی کیا ہے۔ تاہم اس کے محرکات ابھی تک واضع نہیں ہوسکے۔ترک ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ جمال خاشقجی کا قتل سعودی ولی عہد کے حکم پر کیا گیا، ایک میڈیا ہاؤس نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ قتل سے پہلے جمال کی محمد بن سلیمان سے ٹیلیفونک گفتگو بھی کرائی گئی۔ اس کے برعکس ہر لمحے اپنی پوزیشن تبدیل کرتی سعودی حکومت کا اس وقت یہ ماننا ہے کہ اُن کے اہلکاروں نے احکامات سے تجاوز کرتے ہوئے جمال خاشقجی کو قتل کیا۔امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے اس معاملے پر سعودی عرب کی جس طرح ہم نوائی کی گئی اُس کے نتیجے میں قتل کا واقعہ خبروں کے سیلاب میں کہیں دب جانا چاہیے تھا۔ لیکن ترک حکومت کی کمٹمنٹ کے سامنے سعودی عرب کو گھٹنے ٹیکنے پڑگئے اور وہ قتل کے اعتراف پر مجبور ہوا۔گزشتہ روز رجب طیب اردوان نے اپنی سیاسی جماعت کے ارکانِ پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ’ترکی کے پاس موجود شواہد سے بات ثابت ہورہی ہے کہ 2 اکتوبر کو سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کے قتل کی منصوبہ بندی پہلے سے کی گئی تھی۔ اسی خطاب کے دوران انہوں نے سعودی عرب سے مطالبہ بھی کیا کہ وہ جواب دے کہ ’جمال خاشقجی کی لاش کہاں ہے اور اس کارروائی کا حکم کس نے دیا تھا۔‘اردوان کے مطالبے کے پہلے حصے پر عمل درآمد تو ہوچکا اور جمال خاشقجی کی نعش کی باقیات کی نشاندہی کردی گئی ہے۔ (اگرچہ اس حوالے سے بھی ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ نعش کی نشاندہی منحرف سعودی سفارتکار نے کی ہے) اب موجودہ حالات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ سعودیہ کو جلد مجبوراً قتل کا منصوبہ ساز بھی سامنے لانا ہی پڑے گا۔جمال خاشقجی کی لاش کہاں ہے اور اس کارروائی کا حکم کس نے دیا تھا‘: رجب اردوان—تصویر اے پیاس پوری کہانی میں جہاں سعودی حکومت کی شقاوت اور بربریت نمایاں ہوکر سامنے آئی وہیں ہر قدم پر جھوٹ اور غلط بیانی کا مظاہرہ بھی دیکھنے میں آیا۔سعودی بادشاہت اپنے لیے ’خادمِ حرمین شریفین‘ کا لقب پسند کرتی ہے اور مملکتِ سعودیہ میں اسلامی نظام کے نفاذ کی دعویدار بھی ہے، تاہم مسلسل جھوٹ اس کی ساکھ کے لیے دھچکا ثابت ہوئے ہیں۔جمال خاشقجی کے قتل سے سعودی بادشاہت کا یہ پہلو بھی نمایاں ہوکر سامنے آیا کہ مخالفین اور ناقدین سے سعودی حکومت کا رویہ انتہائی ظلم و شقاوت پر مبنی ہے۔ اس وقت سعودی عرب میں بلاشبہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ جیلوں اور اذیت کے مراکز میں پابند سلاسل ہیں۔ بعض ذرائع کے مطابق محبوس افراد کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔انسانی حقوق کے اداروں اور مغربی ممالک کی جانب سے خواتین کو تفریح اور ڈرائیونگ کا حق نہ ملنے پر تو سعودیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن ہزاروں افراد کو برسوں سے حراست میں رکھے جانے پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سعودی حکومت ضمیر کے قیدیوں کو دہشت گردوں یا شدت پسندوں کا ہمدرد بتاتی ہے۔12ویں صدی کا یہ المیہ ہے کہ شدت پسندی یا دہشت گردوں کا حامی ہونے کے الزام کو کسی فرد کو ہر قسم کے انسانی حقوق سے محروم کردینے کا جواز تسلیم کرلیا گیا ہے۔ (گزشتہ صدی کے دوران کیمونسٹ ممالک میں ‘بورژوا’ یعنی سرمایہ داری اور جاگیر داری کا حامی جبکہ سرمایہ دارانہ ممالک میں کیمونسٹ اور تخریب پسند کی اصطلاحات اس مقصد کے لیے استعمال کی جاتی تھیں)۔ آج دنیا بھر کی ظالم ریاستیں اور ادارے اپنے مخالفین پر ظلم و ستم ڈھانے کے لیے اُن پر شدت پسندی کا لیبل لگاتی ہیں۔ جس کے بعد ان کے حق میں آواز بلند کرنا بھی خود کو ان کی صف میں لاکھڑا کرنے کے مترادف ہے۔ اس کارڈ کا سعودی حکومت نے انتہائی بے دردی سے استعمال کیا ہے۔ سعودیہ میں قید و بند کی اذیتوں میں مبتلا افراد کی بڑی تعداد کو 4 مختلف درجات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:آلِ سعود کے مخالف قبالان میں ایک تعداد تو آلِ سعود کے مخالف قبائل کی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے خاندانوں سے مختلف علاقوں کا کنٹرول آلِ سعود نے چھینا تھا، یا پھر جن کے بارے میں آلِ سعود کو خدشہ ہے کہ یہ کسی موقعے پر ان کے اقتدار کے لیے حریف ثابت ہوسکتے ہیں۔آلِ سعود کی مذہبی پالیسی کے مخالفدوسرے درجے میں وہ لوگ ہیں جنہیں آلِ سعود کی مذہبی پالیسی سے اختلاف ہے۔ ان میں قطیف اور اطراف کے شیعہ اور محمد بن عبد الوہاب کے نظریے سے اتفاق نہ رکھنے والے سُنی العقیدہ مسلمان بھی شامل ہیں۔جمہوریت اور اظہار رائے کے حامیتیسرے درجے میں وہ لوگ شامل ہیں جو اصلاحات، جمہوریت اور اظہار رائے کے حامی ہیں۔ اگرچہ اس درجے کے لوگ 1950ء سے ہی زیرِ عتاب ہیں لیکن گزشتہ عشرے میں جب عرب بہار کے تحت کئی ممالک میں انقلاب آیا تو سعودی عرب میں ایسے افراد کی بڑی تعداد کو پابند سلاسل کردیا گیا۔ خصوصاً مصر میں جمہوریت کی بحالی اور اخوان المسلمین کی حکومت کے قیام کے بعد سعودی عرب نے امریکی آشیرباد اور کویت و متحدہ عرب امارات کے تعاون سے اُس کا تختہ اُلٹنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔ ساتھ ہی سعودی عرب کے اندر اخوان کی فکر کے حامیوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا۔ ہزاروں افراد کو جیلوں میں ڈالا گیا، جنہیں انسانیت سوز اذیتیں دی گئیں اور بہت سے افراد ان ہی اذیتوں کو سہتے سہتے جان کی بازی ہار گئے۔محمد بن سلمان اور مغربی طرزِ زندگی کے خلافچوتھے درجے میں وہ لوگ شامل ہیں جنہیں نو منتخب ولی عہد محمد بن سلمان کی اصلاحات اور مغرب طرزِ زندگی کی ترویج کی مخالفت یا اس پر تنقید کی پاداش میں جیلوں میں ڈالا گیا۔ قریباً ایک صدی کی آلِ سعود کی روایات اور فکر و فلسفہ کو جب محمد بن سلمان نے بیک جنبش قلم مسترد کردیا اور مملکت کے لیے نیا وژن 2030ء متعارف کرایا، جو راویت پسند حلقوں کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔ قید و اذیت کے اس نئے درجے میں صرف جید علمائے دین کی تعداد قریباً 4 ہزار سے زائد ہے جبکہ شہریوں کی بڑی تعداد اس کے علاوہ ہے۔سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر تنقیدی آرٹیکل لکھنے پر صحافی جمال خاشقجی اور ان کا خاندان نہ صرف سعودی عرب بلکہ پوری عرب دنیا میں جدت اور ترقی پسندی کا استعارہ ہے۔ اس ضمن میں خاشقجی خاندان ولی عہد کے وژن سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔دوسری جانب خاشقجی خاندان آلِ سعود سے قربت کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے، اسی لیے سعودی اسلحے کے سوداگر کے طور پر عدنان خاشقجی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ایسے میں چند تنقیدی مضامین میں سعودی عرب کے نو منتخب ولی عہد کی صلاحتیوں پر اٹھے سوالات سے نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ جمال خاشقجی کو نشانِ عبرت بنانے کے لیے آلِ سعود نے اپنی ساکھ تک داؤ پر لگا دی۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مملکت کے اندر جو افراد حکومت پر تنقید یا مخالفت کے الزامات میں قید ہوں گے اُن کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہوگا؟اس منظرنامے کا ایک پہلو صحافیوں کو درپیش خطرات اور معدوم ہوتی آزادئ اظہار بھی ہے۔ جمال خاشقجی کے قتل کے بعد شائع ہونے والے ان کے آخری کالم میں لکھا ہے کہ:’اندھیرا اور گہرا ہوگیا ہے، میڈیا کے خلاف کریک ڈاﺅن پر کوئی عالمی ردِعمل نہ آنے پر عرب ممالک میں زبان بندی کا عمل اور تیز ہو رہا ہے‘۔جمال خاشقجی نے مزید لکھا کہ:عرب ممالک میں سرکاری میڈیا کی جانب سے عوام کو غلط معلومات فراہم کی جاتی ہیں، عربوں کو آزاد میڈیا کی ضرورت ہے‘۔جمال خاشقجی کے لکھے آخری الفاظ نہ صرف عرب ممالک بلکہ پوری دنیا پر صادق آ رہے ہیں۔ آج مشرق سے مغرب میں کہیں بھی مکمل آزاد میڈیا کا تصور خاصا محال ہے، کہیں حکومتی پابندیاں تو کہیں کارپوریٹ ورلڈ کا جبر سچ کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ ایک وقت تھا کہ صحافیوں کی زندگیوں کو ایشیا اور افریقہ کے پسماندہ ممالک میں خطرات لاحق ہوتے تھے یا پھر آزادانہ رائے رکھنے والے صحافیوں کی زندگیاں کمیونسٹ ممالک میں خطرات کا شکار ہوا کرتی تھیں لیکن اب یورپ بھی صحافیوں کے لیے محفوظ نہیں رہا۔ یورپی یونین میں ہونے والی کرپشن کی تحقیق کرنے والی بلغاریہ کی وکٹوریہ مارینوا کا قتل ہو یا پھر پاناما لیکس کے ذریعے کرپشن بے نقاب کرنے والیمالٹا کی صحافی ڈافنے کرونا گلیزیہ کا قتل، صورتحال بدتر سے بدترین ہوتی جا رہی ہے۔معروف میڈیا واچ ڈاگ ’رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ کی پریس فریڈم انڈیکس 2018ء کے مطابق دنیا کے جن 5 ممالک میں گزشتہ برس صحافت اور میڈیا کی آزادی شدید متاثر ہوئی، ان میں 4 ممالک برِاعظم یورپ میں واقع ہیں۔ رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نے اپنی اسی انڈیکس میں کہا ہے :یورپ سمیت دنیا بھر میں صحافیوں اور میڈیا مخالف جذبات میں اضافے کی وجہ سے عالمی سطح پر جمہوریت کو بھی سنگین خطرات لاحق ہوچکے ہیں‘۔کہا جاسکتا ہے کہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کی جنگ کے لیے بنائی گئیں پالیسیوں کے باعث آج انسانی حقوق، آزادئ اظہار اور جمہوریت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اقوامِ عالم کو سوچنا ہوگا کہ انسانی حقوق، آزادئ اظہار اور جمہوری اقدار کا تحفظ کیسے یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ ورنہ ہم پھر یورپ کے تاریک عہدِ وسطیٰ میں پہنچ جائیں گے۔جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل پر پیدا ہونے والی حساسیت کے نتیجے میں ترقی معکوس کا عمل روکنے کے ٹھوس اقدامات امید افزا ہوں گے اور اگر ایسا نہ ہوسکا تو مستقبل میں آئے روز ہمیں کسی نہ کسی ’جمال خاشقجی‘ کا قتل افسردہ کرتا رہے گا۔