تحریر: شاہد شکیل
جیسے ڈگری ڈگری ہوتی ہے وہ جعلی ہو یا اصلی ایسے ہی کوٹ کوٹ ہوتا ہے وہ سیاہ ہو یا سفید لیکن ان کوٹوں کے اندر جو شخصیت موجود ہوتی ہیں وہ بہت کم مقدار میں جعلی ہوتی ہیں کیونکہ جعلی ڈگری تو حاصل کی جا سکتی ہے لیکن علم نہیں ایسے ہی علم حاصل کئے بغیر سیاہ یا سفید کوٹ کسی کو نہیں مل سکتا ،سیاہ کوٹ والی شخصیت سے شاید لوگ اتنے خوفزدہ نہیں ہوتے جتنا کہ سفید کوٹ والے سے کیونکہ سیاہ کوٹ والے اپنے کلائنٹ کا ہوش و حواس میں ذہنی اور سفید کوٹ والے مکمل بے ہوش یعنی آدھی موت دینے کے بعد جسمانی آپریشن کرتے ہیں ۔دنیا بھر میں اکثر افراد ایسا سوچتے ہیں کہ ڈاکٹر کے پاس جانے سے بہتر ہے کہ بیمار پڑے رہیں اور اسی نیم مردہ حالت میں کبھی نہ کبھی تندرست ہو جائیں گے کیونکہ ایسے افراد ڈاکٹر کا نام ہی سن کر خوفزدہ ہو جاتے ہیں کہ پتہ نہیں وہ ہمارے ساتھ کیا کرے گا؟
دانت کا درد ہو یا جسمانی اندرونی کوئی بھی انجانی بیماری ہو ڈاکٹر کے پاس نہ جانے سے مزید اپنی صحت کو تباہ کرتے ہیں،لیکن زیادہ تر لوگوں کا ڈاکٹر کے پاس جانا اور علاج کروانا بہت اہم اور عام سی بات ہے چاہے وہ دانت کا درد ہو ،سر درد ہو،پیٹ کا الٹرا ساؤنڈ ہو یا ناک اور گلے کی چیک اپ ہو وقت ضائع کئے بغیر ڈاکٹر کے پاس پہنچ جاتے ہیں ۔ڈاکٹر سے چیک اپ کروانا کوئی خوشگوار بات نہیں لیکن اکثریت روزانہ یہ تکالیف برداشت کرتے ہیں ،جبکہ کچھ لوگوں کیلئے روٹین چیک اپ کروانا وہ ڈینٹسٹ ہو یا انٹرنسٹ کسی بھیانک ٹرپ سے کم نہیں ہوتا ،خاص طور پر مرد ڈاکٹروں کے پاس جانا بالکل پسند نہیں کرتے اور عام قسم کا معائنہ کروانے میں سست روی اختیار کرتے بہانے بناتے اور تاریخوں کو آگے بڑھانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ کسی طرح سے ڈاکٹر کو ٹالتے رہیں
جبکہ حقیقت میں وہ ڈاکٹر کو نہیں بلکہ اپنی بیماری کو ٹالتے اور اندر ہی اندر پالتے رہتے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر سے خوفزدہ ہونے کی ایک نہیں کئی اور مختلف وجوہات ہوتی ہیں مثلاً غیر یقینی احساس ،گھبراہٹ انجانا خوف اور کئی افراد تو پسینہ بہانا شروع کر دیتے ہیں اور کچھ لوگ بات تک نہیں کر سکتے کہ انہیں آخر تکلیف کیا ہے ،کئی لوگوں کو چکر آنا شروع ہو جاتے ہیں ،اندرونی خوف اور کشید دگی کا اتنا تاثر ہوتا ہے کہ مثلاً اگر ڈاکٹر ایسے افراد کا بلڈ پریشر چیک کریں تو وہ ہائی ہوتا ہے اور اگر انہیں گھر میں چیک کیا جائے تو نارمل رفتار ہوتی ہے اسے طبی زبان میں وہائٹ کوٹ سینڈروم کہا جاتا ہے ۔وہائٹ کوٹ یعنی سفید کوٹ سینڈروم کا خوف اس قدر بھیانک ہوتا ہے کہ کئی لوگ کئی سال ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے جسمانی اور نفسیاتی تکالیف و مسائل برداشت کرتے ہیں اور ممکنہ ضمنی اثرات اور ان کے نتائج سے بے خبر رہنے کے سبب بہت جلد موت کا شکار ہو جاتے ہیں
کیونکہ ان کے اندر پائے جانے والے خوف میں سرنج، آپریشن ،خوفناک قسم کی تشخیص گردش کرتی رہتی ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ کوئی بھی سفید کوٹ والا انہیں چھوئے۔ ویانا کے ماہر جنرل پریکٹیشنر اور ہائی سکول سے منسلک ڈاکٹر امین آشور کا کہنا ہے ڈاکٹروں سے خوف انسان کے ماضی سے بھی منسلک ہوتا ہے کیونکہ اگر کسی فرد نے بیماری کے عالم میں ڈاکٹر سے رجوع کیا یا ہاسپیٹل کا چکر لگایا ہو اور غلط تشخیص کے سبب اسے تکلیف دہ طریقے سے علاج کروانا پڑا ہو تو اس دن سے ہی اس کے اندر ڈاکٹر اور ہاسپیٹل کا خوف جگہ بنا لیتا ہے جو اسے ساری زندگی چین نہیں لینے دیتا، علاوہ ازیں کئی افراد کا بچپن میں کسی ڈاکٹر نے درست طریقے سے علاج نہیں کیا تو ایسے افراد بھی سفید کوٹ اور ہاسپیٹل کے نام سے خوفزدہ رہتے ہیں۔
ڈاکٹر امین کا کہنا ہے کوئی بچہ خوشی،اپنی مرضی سے یا مسکراتا ہوا ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتا کیونکہ اکثر ڈاکٹروں نے بچوں کو بیماری کی حالت یا پہلی ملاقات یا رابطے میں ویکسین کا استعمال کیا ہوتا ہے اور یہی پہلا تاثر ہی منفی ہوتا ہے،بچوں کے ساتھ زور زبردستی ، جبر کئے بغیر علاج ممکن ہے کیونکہ میں بچوں سے پہلی ملاقات میں نہ انکا گلا چیک کرتا ہوں نہ سرنج اور دیگر انسٹرومنٹس ان کے سامنے لائے جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر وہ خوفزدہ ہو جائیں یا جسمانی تکلیف پہنچے ، والدین کو میرا مشورہ ہے کہ بچوں کا خوف زائل کرنے کیلئے جب وہ مکمل طور پر صحت مند ہو تو ڈاکٹر کے پاس لے جائیں تاکہ پہلی ملاقات میں بچے سفید کوٹ والے کو دیکھ کر خوف زدہ نہ ہوں اور ڈاکٹر بھی بچوں سے دوستانہ ماحول میں جان پہچان کے بعد اپنے انسٹرومنٹس کو بحیثیت کھلونا انہیں دکھائیں تاکہ ان کے ذہن میں کسی چیز کو اچانک دیکھ کر خوف نہ پیدا ہو۔
بالغ افراد جو ڈاکٹروں سے خوفزدہ ہیں انکی صورت حال خاصی پیچیدہ اور مشکل ہے کیونکہ ایک طرف والدین بچوں کو پیار محبت سے سمجھانے یا جبر کرنے سے ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں تو دوسری طرف بالغ انسان وہائٹ کوٹ سینڈروم میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور شدید مشکلات کا شکار رہتے ہیں ایسی حالت میں انہیں ڈاکٹر کی بجائے نفسیاتی تھیراپسٹ کی اشد ضرورت ہوتی ہے جو ان کا خوف ختم کر سکے کیونکہ ایک ماہر تھیراپسٹ ہی ایسے خوفزدہ مریضوں کا خوف اپنے طور طریقوں سے دور کر سکتا ہے لیکن یہاں بھی ایک مسئلہ درپیش ہوتا ہے کیونکہ تھیراپسٹ بھی ڈاکٹر ہوتا ہے اور مریض کو کسی نفسیاتی ڈاکٹر سے علاج کروانے یا رجوع کرنے میں اتنی ہی دقت پیش آتی ہے جتنا کہ ایک عام ڈاکٹر کا نام سننے کے بعد، خوف سے نجات حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ استعمال کیا جاتا ہے اور وہ سکون آور ادویہ ہیں۔
لیکن سکون آور ادویہ بھی کسی ڈاکٹر سے رجوع کئے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتیں، ڈاکٹر امین کا کہنا ہے میرے لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ مریض کا خوف کسی بھی حالت میں ختم کیا جائے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب مریض سفید کوٹ سے خوفزدہ نہیں ہو گا ،مطالعے کے مطابق کئی بالغ افراد خوف کی وجہ سے ایک عام ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی بجائے بچوں کے ڈاکٹر کے پاس پہنچ جاتے ہیں کیونکہ انکے پاس وہ خوفناک و خطرناک اوزار یا بجلی کی تاروں سے لپٹے انسٹرومنٹ نہیں ہوتے اور ایسے خوفزدہ افراد اپنے آپ کو وہاں محفوظ تصور کرتے ہیں۔
یقینا بالغ افراد کا بچوں کے ڈاکٹر سے رجوع کرنا اچھی بات نہیں لیکن کم سے کم کسی ڈاکٹر کے پاس تو جاتے ہیں چاہے وہ بچوں کا ڈاکٹر ہی ہو۔ڈاکٹر امین کا کہنا ہے موجودہ ترقی یافتہ دور میں اگر کوئی سفید کوٹ سے خوفزدہ ہے تو اپنا علاج انٹر نیٹ کے ذریعے بھی کروا سکتا ہے لیکن اگر کہیں زخم ہو جائے یا چیر پھاڑ کا معاملہ ہو تو کمپیوٹر علاج نہیں کرے گا سفید کوٹ والے سے رابطہ کرنا ضروری ہوجاتا ہے،اس لئے صحت مند رہنے کیلئے ڈاکٹر سے رجوع کرنا لازمی ہے۔
تحریر: شاہد شکیل