تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
وائٹ کالر کریمینل لوگوں گیلانی، امین فہیم، نواز شہباز برادران بمعہ عزیزان واسحاق ڈار، راجہ پرویز اشرف ،آصف زرادری ،ان سب کے حواری وغیرہ اگر اب بھی پہاڑوں جتنا حرام مال کھا کھلا کر اورجمع کرکے احتساب سے بچ رہتے ہیں تو ہمارے لیے ایسی شرم وندامت کا باعث ہو گاکہ ہمیں چلی بھر پانی میں ڈوب کرمرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو گا۔ انگریزوں کے حکم،عام منادی اور نام نہا دفرمان کے مطابق کہ جنگ آزادی میں حصہ لینے والے مجاھدین اور باغی مسلمان فوجیوںکے جو جتنے سر سامراج حکمرانوں کے قدموں میں لاکر ڈالے گااسے اتنے ہی مربع زمین الاٹ کی جائے گی۔ملتان کے موجودہ جاگیرداروں،وڈیروںکا” کارنامہ “ملاحظہ فرمائیں کہ جب باغی فوجی ملتان کنٹونمنٹ سے نکلے تو وہ تقریباً سات سو تھے جن میں سے تین سو پل موج دریا (جوکہ آجکل کچہری اور نشتر کالج کے درمیان کی جگہ کو کہتے ہیں)کے راستے چلے توموجودہ جاگیردارشاہ محمود قریشی کے دادا جان شاہ محمود قریشی نے انھیںگھیر کر قتل کیااورکٹے ہوئے سر انگریز حکمرانوں کے پائوں میں ڈال دیے اور تین سو مربع زمین کا نذرانہ قبول و منظور فرمایا۔
انگریز حکمرانوں کے طوالت ِاقتدار کے لیے ڈھیر ساری دعائیں بھی کیں اور ان میں سے تقریباً 225باغی مسلمان فوجی کینٹ سے شیر شاہ کی طرف روانہ ہوئے توموجودہ جاگیردارمونی شاہ (سالا شاہ محمود قریشی) ابن ِ وڈیرہ مخدوم علمدار حسین شاہ مشہدی کے والد نے گھیر لیے اورقتل کرنے کے بعدکٹے ہوئے سربخدمت سرکار انگلشیہ پیش کر کے بطور صلہ خدمت و تمغہ مسلم غداری اتنے ہی مربع جات زمین وصول فرمائی۔باقی175بچتے بچاتے بذریعہ کروڑ پکابہاولپورجو کہ مشہور اسلامی ریاست تھی میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اوران کی جان سلامت رہی ۔آج اگراپنے انگریزوں کے ٹوڈی بزرگوںکو الاٹ کردہ حرام کی جاگیروں پرموجودہ جاگیردارٹولوں کے نوجوان موج میلے کرتے رہیں اوران کی جاگیریں (جن کے لیے سپریم کورٹ سے شاہ محمود اور جہانگیر ترین نے سٹے آرڈر جاری کروا رکھا ہے )قائم دائم رہیں تو پاکستانی بیس کروڑ عوام ووٹرز(جو صنعتکاروں اور وڈیروں کو ووٹ دیناہی اپنے “ایمان”کا تقاضا سمجھتے ہیں )پر خدا کا عذاب نازل نہ ہو گا تو اور کیا ہو گا۔
اب تو ہر ضلع سے مخصوص جاگیرداراور نو دولتیے ٹولے جوق در جوق پیپلز پارٹی کی تمت بالاخیرکے بعدعمران کی صنعتکارانہ و سود خور سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے تحفظ کو دیکھ کران کی پارٹی میں کود رہے ہیںکہ اب آخری تحفظ یہیں سے مل سکتا ہے بیچارے نادان کیا جانیں کہ اب آئندہ آمدہ انتخابات میں ایسے جاگیرداروں کواپنے غریبوں کے خون سے تعمیر کردہ محلات ہی بچانے مشکل ہو جائیں گے۔جعلی ووٹوں کی لعنت کی برسات اب ان پر نہیں برسے گی ۔لوگ اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے نکلیں گے اور نئے لوگوں پر مشتمل نئی سیاسی جماعت اللہ اکبر کی ہی تحریک کو کامیاب بنا ڈالیں گے۔اور یہ جاگیردار دوبارہ اپنے پالتو کتوںکو گوشت اور گھوڑوں کومربع جات کھلانے کے کام میں مشغول رہا کریں گے اور بچوں تک کو بھی نصیحت کریں گے کہ ملکی سیاست ِکارزار و خار زار میں حصہ لینے کی غلطی نہ کرنا۔عمران خان کے یہ نئے ساتھی خود تو ڈوبیں گے ہی مگر خان بیچارے کو بھی ڈبکیاں دلوا کر رہیں گے۔
مگر اب تو غیور نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جو نیا پاکستان اوراس کے نئے حکمران کے نعرے پر اکٹھے ہوئے تھے وہی ان انگریزوں کے ٹوڈی جاگیرداروں اورنو دولتیے سود خور سرمایہ داروں کا الیکشن میں تیا پانچا کرڈالیں گے۔ دریا کے دو پاٹ نہ کبھی ملے ہیں اور نہ مل سکتے ہیںکیسے ہو سکتا ہے کہ ترین اور گیلانی جیسے ہر دیگ کے چمچے یونہی دندناتے جہازوں پر اڑتے پھریں اورعمران و زرداری ان کے موج میلوں کے محافظ بنے رہیں ۔یعنی سود جیسے پلید نظام کے بد بو دار حمام میں اکٹھے ننگے نہانے والے بھی مقتدر رہیں اورغریب عوام بھی سکون سے گزر اوقات کریں ۔ان سبھی کوبمع شریف خاندان اور ان کے کار پردازوں کے اگرسیاسی طور پر مکمل گہری کھائیوں میں نہ دفنایا گیا تو آئندہ یہ اور ان کے پالتو نہ صرف غریبوں کا خون چوس ڈالیں گے بلکہ بمعہ گوشت اوران کی ہڈیاں تک چبا ڈالیں گے۔ نابغہء عصر و عقبری اسلام اور مفسر قرآن ایک مرحوم جید عالم دین نے کہا تھا”سرمایہ داری ایک ناسور ہے اور اسلام اس کا نشتر ہے”اب نشتر کے چلنے کاوقت آن پہنچا ہے۔
ایسا گندہ خون نکالے بغیر سیاسی نظام چل ہی نہیں سکتا۔کہ یہ تو سبھی بیرون ممالک پلازوں فلیٹوں،ملوںاورحرام مال جمع کروانے میں مصروف رہتے ہیں اور ملکی مسائل پر توجہ دینے کے لیے ان کے پاس ہفتوں مہینوں تک وقت ہی نہیں ہوتا۔اگر وڈیرے جاگیرادر،خونخوارنودولتیے ہی منتخب ہوتے رہنے ہیںتو بھاڑ میں جائے ایسی نام نہاد سیکولر کرپٹ بیورو کریسی،الیکشنی مشینری اور اس کے قوائداور ایسی جمہوریت۔اسلامی جمہوریت تو یہ ہے کہ باکردار اشخاص کو ہی ذمہ داری سونپی جاسکتی ہیں ۔ اور یہ چلے ہیں نام نہاد اصلاحاتی کمیٹی بنا کر سرے سے ہی62,63کی دفعات میں ایسی ترامیم کرنے کہ آئین آدھا تیتر اور آدھا بٹیریا سفید کوا بن کر رہ جائے۔
ان بدمعاش و اوباش جاگیرداروں اور وڈیروں کو اپنی ساری بدکرداریوں کے باوجود تحفظ مل جائے اور وہ پھر کسی طرح دوبارہ منتخب ہو کر غریبوں کی گردنوں پر قلاوہ اوراس کے اردگرد لوہے کی زنجیریں ڈال سکیں ۔ مگر خدا دیکھ رہاہے!وہی حکمران ہے اور وہی زمین پر اقتدار بخشتاہے۔زرداری نواز عمران الطاف سمیت کٹھ ملائیت کے علمبرادر سبھی موجودہ حکمران دیکھتے رہ جائیں گے اور اقتدار کا ہما کسی اور ہی اللہ کے بندوں کے سر بیٹھ جائے گا۔ انشاء اللہ
تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
drahsanbari@gmail.com