counter easy hit

’’گورا باغ/ کالا باغ ڈیم اور بابا ٹلّ ؟‘‘

میرے دوست بابا ٹلّ کل رات میرے خواب میں آگئے اور اپنے گلے میں لٹکا ٹلّ بجائے بغیر میرے ڈرائنگ روم میں میرے سامنے پڑے سِنگل صوفے پر بیٹھتے ہی اُنہوں نے کہا کہ ’’ اثر چوہان صاحب! 6 اگست 2016ء کو وزیراعلیٰ سندھ سیّد مُراد علی شاہ نے کہا تھا ’’ کالا باغ ڈیم ایک مُردہ گھوڑا ہے اور چابُک مارنے سے مُردہ گھوڑا زندہ نہیں ہوگا ‘‘ 8 اگست کو آپ نے اپنے کالم میں لِکھ دِیا تھا ’’ کالا باغ ڈیم مُردہ گھوڑا نہیں بلکہ زندہ اونٹ ہے ‘‘۔ کیا کالا باغ ڈیم کی حمایت میں اتنا ہی کافی ہے!۔
مَیں بابا ٹلّ جی!۔ میرا تعلق ضلع سرگودھا سے اور آپ کا ضلع جھنگ سے آپ نے سیّد وارث شاہ کی ’’ہِیر رانجھا ‘‘ کی کہانی تو پڑھی ہوگی۔ ضلع سرگودھا کے گائوں تخت ہزارہ کا میاں مُراد بخش رانجھا آپ کے جھنگ کی ہِیر سیال کا عاشق تھا؟۔
بابا ٹلّ ’’ ہِیر رانجھا کی کہانی کا کالا باغ ڈیم سے کیا تعلق؟‘‘
مَیں تعلق ہے ! جھنگ کی ہِیر سیال کا سُسرال رنگ پور کھڑیاں تھا اُس کے مشرق میں ایک گھنائونا جنگل تھا جِس کا نام تھا ’’ کالا باغ‘‘
بابا ٹلّ۔ ’’تو پھر مَیں کیا کروں؟‘‘
مَیں، پہلے میری پوری بات سُن لیں دخل اندازی نہ کریں؟
بابا ٹلّ ’’ٹھیک ہے !‘‘
مَیں ہِیر کا عاشق رانجھاؔ ، جوگی کا بھیس بدل کر رنگ پور کھڑیاں گیا اور اُس نے کالا باغ میں ڈیرا لگا لِیا ہِیر سیال اپنی نند ( اپنے شوہر سَیدا کھیڑا کی بہن ) سہتی ؔکے ساتھ رانجھا سے مِلنے جاتی تھی؟۔
بابا ٹلّ یعنی ’’ کالا باغ میں؟ لیکن اِس میں ’’ کالا باغ ڈیم ‘‘ کہاں سے آگیا؟‘‘
مَیں ابھی بتاتا ہُوں بابا ٹلّ جی! عمران خان کے ضلع میانوالی میں بھی ایک ’’کالا باغ‘‘ ہے جہاں کے نواب امیر محمد خان ’’ نواب آف کالا باغ‘‘ کہلاتے تھے؟
بابا ٹلّ ’’ وہی نواب امیر محمد خان آف کالا باغ جو صدر محمد ایوب خان کے دَور میں صوبہ مغربی پاکستان کے گورنر تھے اور اپنی بڑی اور با رُعب مونچھوں کی وجہ سے مشہور تھے؟‘‘۔
مَیں جی ہاں!۔ وہی لیکن نواب آف کالا باغ اپنی با رُعب مونچھوں سے’’کالا باغ ڈیم‘‘ نہیں بنوا سکے؟۔
بابا ٹلّ ’’ممکن ہے کہ نواب آف کالا باغ اِس بات سے ڈرتے ہوں گے کہ اگر کہیں کالا باغ ڈیم بن گیا تو کوئی اور ’’نواب آف کالا باغ ڈیم‘‘ کہلائے گا۔ اور ہاں!۔ یہ ہمارے کِس سیاستدان نے اعلان کِیا تھا کہ ’’ اگر کالا باغ ڈیم بنایا گیا تو ہم اُسے بم مار کر تباہ کردیں گے!‘‘۔
مَیں ۔ پاکستان میں پختونستان بنانے کے علمبردار نیشنل عوامی پارٹی کے مرحوم لیڈر خان عبداُلولی خان نے دراصل اُس وقت تک پاکستان نے ایٹم بم نہیں بنایا تھا؟۔
بابا ٹلّ۔ ’’خان عبداُلولی خان کے پاس کِس طرح کا ایٹم بم تھا؟‘‘۔
مَیں مجھے نہیں معلوم کیونکہ خان صاحب کے اِس اعلان پر ہماری کسی حکومت نے چار سدّہ میں اُن کے ولی باغ میں چھاپہ مار کر تلاشی ہی نہیں لی تھی ؟۔
بابا ٹلّ۔ ’’کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکومت ’’ کالا باغ ڈیم ‘‘ کا نام ’’ولی باغ ڈیم ‘‘ رکھ کر خان عبداُلولی خان کو منا لیتی؟‘‘۔
مَیں، مَیںنے اپنے 23 مئی 1997ء کے کالم میں وزیراعظم میاں نوازشریف کو یہی تجویز پیش کی تھی نیشنل عوامی پارٹی مسلم لیگ ن کی حلیف تھی۔ اُن دنوں جناب محمد اجمل خٹک، اُس کے صدر تھے اور خان عبداُلولی خان راہبر، جناب محمد اجمل خٹک کہا کرتے تھے ’’ وزیراعظم میاں نواز شریف سے جب بھی میری اور میرے ساتھیوں کی ملاقات ہوتی ہے تو میاں صاحب ہماری پارٹی کے جذبات کے احترام میں کالا باغ ڈیم کی بات نہیں کرتے تھے ‘‘۔ ایک بار وزیراعظم نوازشریف کے وفد میں شامل مسلم لیگ ن کے ایک صاحب نے اشارتاً ’’ کالا باغ ڈیم ‘‘ کا نام لِیا تو مَیں نے کہا کہ اِس کو دفع کرو !۔
بابا ٹلّ۔ ’’ آپ کے عِلم میں ہوگا کہ خان عبد اُلولی خان اور ان کی نیشنل عوامی پارٹی کے لوگ ’’ کالا باغ ڈیم ‘‘ کی کیوں مخالفت کرتے تھے / ہیں؟‘‘۔
مَیں، مخالفت کی وجہ مجھے نومبر 2012ء میں معلوم ہُوئی جب ’’ نوائے وقت ‘‘ میں جناب محمد سلیمان خان کا ایک مضمون شائع ہُوا، جِس میں خان صاحب نے لِکھا تھا کہ ’’فروری 1948ء میں قائداعظم محمد علی جناحؒ نے ’’کالا باغ ‘‘ (میانوالی) ہائیڈرو پراجیکٹ پر بہت جلد کام شروع کرنے کا حکم دِیا تھا‘‘۔
بابا ٹلّ۔ ’’ پھر اِسی حکم پر فوری طور پر عمل کیوں نہیں ہوا؟‘‘۔
مَیں ۔ خان عبداُلولی خان کے والد خان عبدالغفار خان، قائداعظمؒ اور قیامِ پاکستان کے مخالف تھے وہ تو اپنی وصیت کے مطابق پاکستان کے بجائے افغانستان کے شہر جلال آباد میں دفن ہُوئے تھے؟‘‘۔
بابا ٹلّ۔ ’’ قیامِ پاکستان کی مخالفت تو مولانا فضل اُلرحمن کے والد مولانا مُفتی محمود نے بھی کی تھی مُفتی محمود صاحب نے تو قیامِ پاکستان کے بعد یہ بھی کہا تھا کہ ’’ خُدا کا شُکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے ‘‘۔ مُفتی صاحب نے قائداعظمؒ کے پاکستان میں بھرپور سیاست کی لیکن، پھر اُنہوں نے مولانا فضل اُلرحمن کو یہ وصیت کیوں نہیں کی تھی ’’مجھے بھی مرنے کے بعد افغانستان میں دفن کِیا جائے؟‘‘۔
مَیں ۔ مُفتی محمود صاحب نے ’’ اجتہاد‘‘ کر لیا ہوگا؟۔ جناب محمد سلیمان خان نے اپنے مضمون میں یہ بھی لِکھا تھا ’’لاہور ہائی کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 154 کے تحت مشترکہ مفادات کی کونسل کی 1991ء اور 1999ء کی سفارشات کی روشنی میں وفاقی حکومت کو حکم دِیا تھا ’’ کالا باغ ڈیم کی جلد تعمیر کے لئے اقدامات کئے جائیں !‘‘ حُکم میں یہ بھی کہا گیا تھا ’’کالا باغ ڈیم کی تعمیر ملکی مفادات میں ہے کیونکہ ملک میں توانائی کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے؟‘‘۔
بابا ٹلّ۔ ’’ 1991ء اور 1998ء میں تو میاں نواز شریف ہی وزیراعظم تھے۔ اُنہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے حُکم کے مطابق ملکی مفادات میں کالا باغ ڈیم کی جلد تعمیر کے لئے اقدامات کیوں نہیں کئے؟‘‘۔
مَیں ۔ میاں نواز شریف وضعدار اِنسان ہیں۔ اپنے اتحادیوں کے جذبات کا خیال رکھتے ہیں، خواہ اُن کا پس منظر تحریکِ پاکستان کی مخالفت کا ہی کیوں نہ ہو؟۔ بابا ٹلّ جی ! ۔ جناب محمد سلیمان خان کے مضمون کی اشاعت کے فوراً بعد یکم دسمبر 2012ء کو ’’ نوائے وقت ‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ کالا باغ ڈیم ’’ریفرنڈم کرالیں!‘‘ لیکن ’’کون سُنتا ہے۔ فغا نِ دروریش؟‘‘ عرفان صدیقی صاحب یا وزیراعظم صاحب کے ’’ کسی بھی دوسرے مشیر ‘‘ نے جنابِ وزیراعظم کو میرا کالم پڑھ کر ہی نہیں سُنایا؟۔
بابا ٹلّ ۔ ’’اب پاکستانی قوم کیا کرے؟‘‘۔
مَیں ۔ قوم اللہ تعالیٰ سے دُعا کرے کہ وہ ہمارے وزیراعظم کو اِس قابل بنا دیں کہ وہ پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈروںکو ’’ کالا باغ ڈیم ‘‘ کی تعمیر پر راضی کرلیں ایسے موقع پرکہا جاتا ہے کہ ’’ توں رازی تے ربّ راضی!‘‘۔
بابا ٹلّ نے کہا کہ ’’ اثر چوہان صاحب!۔ مَیں بھی اپنے ربّ کو راضی کرنے کے لئے نماز پڑھنے جا رہا ہُوں ‘‘۔ اُنہوں نے تین بار ٹلّ بجایا پھر میری آنکھ کُھل گئی۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website