میں آج لاہور کے جنرل ہسپتال کی اہمیت اور مسائل کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں مگر یہاں میوہسپتال ایک لجپال ہسپتال ہے۔ اسے میوہسپتال کے اے ایم ایس ڈاکٹر ظہیر ہسپتالوں کا داتا دربار کہتے ہیں۔ آجکل یہاں ایم ایس ڈاکٹر امجد شہزاد ہیں۔ وہ شاعر ہیں‘ بہت نفیس آدمی ہیں۔ احکام جاری کرتے ہیں مگر بے نیاز آدمی ہیں۔ اس کی پروا نہیں ہوتی کہ ان کے احکامات کے مطابق عمل کتنا ہو رہا ہے۔ روٹین میں کام چلتا رہتا ہے۔ میری رشتہ داری میوہسپتال سے ہے۔ ڈاکٹر طیبہ اعجاز اور ڈاکٹر خورشید خواجہ ہیں جو میرے عزیز ہیں مگر ایک برادری جنرل ہسپتال سے بھی ہے۔ میں خود تو وہاں نہیں گیا مگر کئی دوستوں کو وہاں بھیجا ہے۔
جنرل ہسپتال نیورو سرجری کیلئے بہت مشہور ہے مگر اس شعبے کی حالت زار کیلئے لوگ زاروقطار روتے ہیں۔ ایک تو عجیب و غریب صورتحال کہ ایکٹنگ پرنسپل پروفیسر غیاث النبی طیب کی طرف سے نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے کہ شعبہ نیورو سرجری کے وارڈ نمبر 20 کو خالی کیا جائے اور وہاں ان کے شعبہ معدہ کے وارڈ کو منتقل کیا جائے۔
معدے کے وارڈ تقریباً ہر ہسپتال میں موجود ہیں جبکہ نیورو سرجری کا شعبہ پورے پنجاب میں صرف جنرل ہسپتال میں ہے اور یہ ہسپتال اسی حوالے سے مشہور ہے۔
دماغی چوٹ کے مریض بھی جنرل ہسپتال میں آتے ہیں۔ نیورو سرجری کی ایمرجنسی میں 15 بیڈ ہیں اور 37 مریض بالعموم موجود ہوتے ہیں۔ ایک بیڈ پر کم از کم دو مریض لٹانے پڑتے ہیں۔ مریض اور ان کے لواحقین پکار پکار کر پنجاب حکومت سے فریادیں کرتے ہیں کہ وہ فوری نوٹس لے۔
پنجاب حکومت نے وزیراعلیٰ شہبازشریف کی سرپرستی میں پانچ ارب کی مالیت سے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف نیورو سائنسز تعمیر کروایا تاکہ اس بہت اہم شعبے کو بہتر بنایا جائے‘ فعال کیا جائے۔
ان سے گزارش ہے کہ وہ اس طرف خصوصی توجہ فرمائیں اور ہسپتال اپنی اصل وجۂ شہرت کو باقی رکھ سکے۔ ان سے مزیدگزارش ہے کہ وہ کبھی جنرل ہسپتال اور اس کے شعبہ نیورو سرجری کا دورہ کریں اور خود ملاحظہ فرمائیں کہ غریب لوگوں کو کیا ضرورت ہے۔ جنرل ہسپتال کیلئے انہوں نے بہت کچھ کیا ہے۔ اب اس سے مریضوں کو فائدہ بھی پوری طرح پہنچنا چاہئے۔
مجھے یاد ہے کہ جاوید ہاشمی کو دیکھنے کیلئے شہبازشریف یہاں آئے تھے۔ میں بھی یہاں تھا۔ مجھے اچھا لگا تھا۔ وہ کسی دن کسی غیر سیاسی اور غیر اہم مریض بلکہ مریضوں کو دیکھنے کیلئے آئیں۔ مجھے پتہ چلا تو میں بھی حاضر ہونگا۔ مجھے یقین ہے کہ اس کے بعد جنرل ہسپتال کا ایک نیا زمانہ شروع ہوگا۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو اپنی کابینہ کے کئی ارکان کے ساتھ مجبوراً ریل گاڑی میں سفر کرنے لاڑکانہ سے کراچی آنا پڑا۔ بہت دھند تھی اور ان کا خصوصی جہاز اڑایا نہ جا سکا۔ کبھی وہ عوامی جہاز میں بھی سفر کر لیا کریں اور مجبوری کے علاوہ بھی گاڑی کا سفر کریں۔ گاڑی کا سفر بڑا رومانٹک ہوتا ہے۔ استقبال کرنے کا مزا صرف ریلوے سٹیشن پر آتا ہے۔ الوداع کرنے کا بھی لطف آتا ہے۔ دیر تک دیکھ کر ہاتھ ہلانے کا مزا ملتا ہے۔
گڈی کوک مریندی اے
ہمارے میانوالی کی ایک ہردلعزیز سیاسی لیڈر ممبر اسمبلی اور وزیر بہبودآبادی بیگم ذکیہ شاہنواز نے کہا کہ تندرست جسم صحت مند دماغ کا ضامن ہے۔ ان کے بال اُجالے کی طرح سفید اور شفاف ہیں۔ وہ خود اُجالے کی طرح اُجلی ہیں۔ انہیں اللہ نے یہ نعمت عطا کی ہے کہ وہ تین زبانیں ان کے اصل تلفظ اور لہجے میں روانی اور پوری معنویت کی دلکشی اور مکمل مٹھاس کے ساتھ بول لیتی ہیں۔ اردو‘ انگریزی اور میانوالی ‘ پنجابی‘ ہندکو اور سرائیکی کا محبوب امتزاج ہے۔ وہ بولتی ہیں تو برسوں پرانے دروازے کھولتی ہیں۔ وہ بڑی بہن ہیں۔ سیاست کی سب عورتوںکو ایک بار ذکیہ شاہنواز سے ملنا چاہئے۔ روانی اور آسانی ان کے لہجے میں رچی بسی ہے۔ بہت کم خواتین ہیں جن کو سفید بال اتنے خوبصورت اور شاندار لگتے ہیں۔ ذکیہ شاہنواز کہتی ہیں تعلیم ضروری ہے اور سپورٹس بھی ضروری ہے۔