گذشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر “کون لوگ او تسی” بڑا ٹرینڈ کیا اور دو روز قبل تحریکِ انصاف کے نگران وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا نام واپس لینے کے بعد سے “یوٹرن” ٹاپ ٹرینڈ بنا اور ہر کوئی یوٹرن کا راگ الاپنے لگا۔
تحریکِ انصاف نے نگران وزیرِ اعلیٰ کے پی کا بھی نام دے کر واپس لیا اور پھر پنجاب میں ناصر کھوسہ کا نام دے کر واپس لے لیا گیا جس پر ہماری سوشل میڈیا بریگیڈ بڑی ناراض دکھائی دی بلکہ خود پی ٹی آئی والے بھی اپنی جماعت کے اس عمل پر تنقید کرتے رہے اور یوں “کون لوگ او تسی” کی جگہ “یوٹرن” نے لے لی۔
تحریکِ انصاف اور عمران خان کی جانب سے اپنے بیان سے مکر جانا یا یوٹرن لینا بہت ہی معمولی بات ہے۔ پتہ نہیں کیوں اب یاروں کو برا لگتا ہے اور وہ تنقید پر اتر آتے ہیں۔ شاید یہ لوگ خان صاحب کے یوٹرن بھول گئے ہیں تو کیوں نہ عمران خان کے یوٹرن یاد کرا دئیے جائیں۔ ہو سکتا ہے انہیں کچھ یاد آجائے ورنہ ہم تو پوچھ ہی سکتے ہیں کہ “کون لوگ او تسی؟”
یوٹرن کی تاریخ نہ جانے کتنی پرانی ہے لیکن ہم زیادہ پیچھے نہیں جائیں گے۔ 2013ء میں عمران خان نے نجم سیٹھی پر پینتیس پنکچر کا الزام لگایا اور دعویٰ کیا کہ میرے پاس ٹیپ موجود ہے لیکن بعد میں یوٹرن لیتے ہوئے کہا کہ بیان سیاسی تھا۔
خان صاحب سابق چیف جسٹس پر بھی دھاندلی کا الزام لگا کر دستبردار ہو چکے ہیں۔ جناب نے کہا تھا افتخار چودھری اس ملک کی آخری امید ہیں اور پھر فرمایا کہ افتخار چودھری بھی دھاندلی میں ملوث ہیں۔ اس یوٹرن پر بھی بندہ پوچھے “او پائی کون لوگ او تسی؟”
عمران خان نے پرویز الہیٰ کو سب سے بڑا ڈاکو قرار دیا اور اس کے بعد فرمایا پرویز الہیٰ اور ہم مل کر کرپشن کےخلاف لڑیں گے۔ اسی طرح جناب نے کہا شیخ رشید جیسے آدمی کو اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوں اور پھرایسا یوٹرن لیا کہ اب کہتے ہیں شیخ رشید اور ہماری سوچ ایک ہے۔ کپتان نے بابر اعوان کو چور کہا اور پھر اسے ہی اپنا وکیل بھی رکھ لیا۔ اس یوٹرن پر بھی پوچھنا تو بنتا ہے “کون لوگ او تسی؟”
عمران خان ہمیشہ موروثی سیاست کےخلاف آواز اٹھاتے رہے۔ موروثی سیاست کو بنیاد بنا کر بلاول بھٹو زرداری، حمزہ شہباز اور مریم نواز کو نشانہ بناتے رہے۔ لودھراں میں ضمنی الیکشن کے وقت جہانگیر ترین کے بیٹے کو ٹکٹ دے دیا۔ او پائی کون لوگ او تسی؟
شادیوں کا تو جناب کو بڑا شوق ہے پوری ہیٹرک کر رکھی ہے۔ ایک بار کہا تھا نواز شریف کے استعفے تک شادی نہیں کروں گا لیکن پھر دھرنے کے دوران ہی کہہ دیا کہ دھرنا اس لئے دے رہا ہوں تاکہ میں شادی کرسکوں۔ پھر طلاق پر کہا کہ طلاق کی باتیں میڈیا کر رہا ہے، سب جھوٹ ہے لیکن جب طلاق ہوگئی تو فرمایا طلاق میرا ذاتی مسئلہ ہے، کوئی بات نہ کرے۔ آخر بتا کیوں نہیں دیتے۔ کون لوگ او تسی؟
بشریٰ مانیکا کی خبر لیک ہوئی تو کہا صرف پیغام بھیجا ہے۔ پھر انہی گواہان کی گواہی پر نکاح بھی کرلیا۔
جناب نے اعلان کیا کہ نواز شریف کو وزیراعظم نہیں مانتا پھر اسی نواز شریف کے لگائے ہوئے آرمی چیف کو مبارکباد بھی پیش کرتے رہے۔ نواز شریف کی نااہلی کو بہترین فیصلہ قرار دیا اور پھر خود ہی کہہ دیا کہ کمزور فیصلہ دیا ہے۔۔ او پائی دس دیو کون لوگ او تسی؟
خان صاحب نے کہا آف شور کمپنی رکھنے والے چور ہیں، پھر جب اپنی نکل آئی تو کہا میں نے آف شور کمپنی اس لئے بنائی تاکہ ٹیکس بچا سکوں۔ جب بنی گالہ میں ان کے گھر کا کیس چلا تو پہلے کہا بنی گالہ کائونٹی کے پیسوں سے خریدا پھر اچانک یوٹرن لیا اور کہا نہیں نہیں بنی گالہ تو جمائما نے گفٹ کیا۔ جب بتا نہیں سکتے تو پوچھتے کیوں ہو۔۔ کہ کون لوگ او تسی ؟
جب پانامہ اسکینڈل کھلا تو عمران خان نے کہا کہ ہمارے پاس پانامہ کے ثبوت ہیں لیکن جب ثبوت عدالت نے مانگے تو کہا ثبوت دینا حکومت کا کام ہے۔ اسی طرح جب خود عمران خان پر کیس ہوا تو کہا کہ ثبوت وہ دیتا ہے جو الزام لگاتا ہے۔۔ اوپائی کون لوگ او تسی؟
عمران خان کے بڑے بڑے یوٹرن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جناب نے آصف زرداری کو بیماری قرار دیا اور پھر سینیٹ میں اسی بیماری کو ووٹ بھی دے دیا اور تو اور کہتے تھے میرے لوگوں کو خریدا نہیں جا سکتا۔ پھر کہا کہ میرے لوگ بک گئے۔
جناب میٹرو بس کو جنگلا بس کہتے تھکتے نہیں تھے لیکن پشاور میں یہی جنگلہ بس بنالی۔ پنجاب میں میٹرو بس کے ایلی ویٹڈ ٹریک پر بھی تنقید کی اور کہا دنیا کے کسی ملک میں بس اوپر ہوا میں نہیں چلتی پھر پشاور میں بھی ایلی ویٹڈ ٹریک بنالیا اور کہا نیچے جگہ نہیں تھی۔ آخر کون لوگ او تسی؟
دھرنے کے دوران نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ کیا لیکن اپنے ہی نمائندوں کے اسمبلی سے استعفے دلوادئیے۔ عمران خان نے 2009ء میں الطاف حسین کی تعریف کی اور پھر قاتل اور دہشت گرد کہا اور تو اور زہرہ شاہد کے قتل کا الزام بھی ایم کیو ایم والوں پر لگا دیا۔ اسی طرح عمران خان پرویز مشرف، افتخار محمد چودھری، چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کی تعریفیں کیں اور اس کے بعد ان پر تنقیدی نشتر برسائے۔
شخصیات تو شخصیات جناب نے اداروں کو بھی نہ بخشا پہلے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کیا اور پھر خود ہی واپس بھی آگئے۔ کتنی بار یہ مجھے یاد نہیں۔ ویسے تو یہ خود عمران خان کو بھی نہیں یاد رہتا کہ وہ آخری بار پارلیمنٹ کب گئے تھے۔ لیکن خان صاحب کی اسی حرکت پر میاں صاحب کو کہنے کا موقع مل گیا کہ خان صاحب نے تھوک کے چاٹا ہے۔ اب میاں صاحب کو کون سمجھائے کہ یہ تھوک کے نہیں چاٹا صرف یوٹرن لیا گیا ہے۔
عمران خان خود کو دھرنے اور احتجاج کا ماہر کہتے ہیں اور وہ عوام کو سڑکوں پر لانے کی بات تو ایسے کر دیتے ہیں جیسے اماں بچوں کو یہ کہہ کر ڈراتی ہیں کہ آنے دے تیرے باپ کو سب بتائوں گی اور بچے سہم جاتے ہیں لیکن ابا کے آنے پر اماں کو کچھ یاد ہی نہں رہتا۔ اسی طرح عمران خان نے بھی تئیس اکتوبر کو اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کیا پھر یوٹرن لے کر دھرنے کی تاریخ تبدیل کرکے دو نومبر کردی۔ یاد آیا دھرنے سے پہلے خان صاحب نے شیخ رشید کے ساتھ لال حویلی کے سامنے ٹریلر دکھانے کا وعدہ کیا تھا لیکن ہمیشہ کی طرح مکر گئےاور ٹریلر نہیں دکھایا۔ بھلا ہو شیخ رشید کا جنہوں نے موٹرسائیکل پر ایسا اسٹنٹ کیا کہ ان کی پوری فلم ہی ہٹ ہوگئی۔
ستائیس اکتوبر سے یکم نومبر تک پولیس اور ایف سی کے ساتھ پی ٹی آئی کارکنوں کی جھڑپیں چلتی رہیں لیکن خان صاحب بنی گالہ سے باہر تک نہیں نکلے اور پھر جب معاملہ حل ہوگیا تو جناب نے یکم نومبر کو دھرنے کی بجائے یوم تشکر منانے کا اعلان کر دیا تھا۔
ایک بار عمران خان صاحب نے مطالبہ کیا تھا کہ انتخابات فوری ہونے چاہئیے اور اسی میں ملک کے مسائل کا حل ہے۔ شاید وہ خود شیروانی پہننے کو تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں لیکن وہ اپنے اس مطالبے سے بھی پھر گئے اور شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم نے جماعت سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا ہےکہ انتخابات وقت پر ہی ہونے چاہئیے۔۔ پتہ نہیں یہ بیان دینے سے پہلے مشاورت کیوں نہیں کر لیتے یا ان کی مشاورت ہوتی ہی بیان داغنے کے بعد ہے۔
لگتا ہے تحریک انصاف کو ٹرائی بال کھیلنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ ان کی پہلی بال اگر مس ہوجائے یا ان کی وکٹیں اڑ جائیں، وہ گیند ان کیلئے ٹرائی ہی ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ فوراً دوسری بال کا مطالبہ کر دیتے ہیں یا یوٹرن لے لیتے ہیں۔
تحریک انصاف کو اپنی یوٹرن پالیسی بدلنی ہوگی کیوں کہ اب عوام میں سنجیدگی اور شعور پہلے کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اگر عمران خان نے اپنا ووٹ بنک بڑھانا ہے تو انہیں یہ باور کرنا ہوگا کہ وہ سیاسی طور پر نابالغ ہیں۔