عمران خان نے یہ انٹرویو مڈل ایسٹ آئی نامی ویب سائٹ کو دیا جس پر گذشتہ روز سے پاکستانی سوشل میڈیا پر بحث مباحثہ ہو رہا ہے۔ اس مباحثے میں ٹوئسٹ تب آیا جب وزیراعظم کے معاونِ خصوصی اور دستِ راست نعیم الحق نے ٹوئٹر پر صحافی کامران خان کی ٹویٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے انٹرویو سے صاف انکار کر دیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ کچھ یوں ہے۔ کامران خان نے ٹویٹ کی کہ ‘وزیراعظم کی جانب سے حالات کی بہت بری عکاسی۔ جس سے ناامیدی مزید بڑھی ہے، اور یہ بالکل حیران کُن نہیں کہ آج صبح کراچی سٹاک ایکسچینج 700 پوائنٹس گر گیا۔’اس پر تبصرہ کرتے ہوئے نعیم الحق نے ٹویٹ کی کہ ‘وزیراعظم نے کوئی انٹرویو نہیں دیا۔ غیرملکیوں کا ایک نمائندہ وفد جو پاکستان کے دورے پر تھا وہ وزیراعظم سے ملا جن کو وزیراعظم نے حالات و واقعات سے آگاہ کیا جن کا ملک کو سامنا ہے۔ آخر آپ جیسے ایک سینیئر صحافی نے ہمارا موقف کیوں نہیں لیا؟’اس پر عالیہ چغتائی نے سوال کیا کہ ‘نعیم الحق کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ مڈل ایسٹ آئی حقائق کے منافی ہے؟ میرے لیے اس پر یقین کرنا بہت ہی مشکل ہو گا۔’اس پر نعیم الحق نے عالیہ کو جواب دیا کہ
‘انٹرویو کے لیے نہ کوئی درخواست دی گئی اور نہ دیا گیا۔ جان اوزبورن ایک کرکٹ مصنف اور وزیراعظم کے دوست اپنی نئی کتاب پیش کرنے کے لیے آئے جن کے ساتھ تین دوست آئے جنہیں ہم نہیں جانتے تھے۔ اس کے بعد جو ہوا وہ ایک نجی گفتگو تھی۔’دلچسپ بات یہ ہے کہ نعیم الحق جن صاحب کو عمران خان کا دوست جان اوزبورن کہہ رہے ہیں، اُن کا نام پیٹر اوبورن ہے۔ جنہوں نے پاکستانی کرکٹ کے بارے میں ایک مشہور کتاب ’دی وونڈڈ ٹائیگرز پاکستانی کرکٹ کی ایک تاریخ‘ کے نام سے تصنیف کی ہوئی ہے۔مگر پاکستانی میڈیا پر سب نے پیٹر کو جان بنا کر ہی تبصرے کیے۔اس پر عالیہ نے جواب دیا کہ ‘جو آپ کہہ رہے ہیں یہ آپ کا موقف ہو سکتا ہے مگر مڈل ایسٹ آئی ایک انتہائی معتبر ادارہ ہے جس کے بہت قابلِ احترام ایڈیٹر ڈیوڈ ہرسٹ ہیں۔ میرے لیے یہ یقین کرنا بہت مشکل ہے۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ گفتگو نجی تھی مگر اس بات کا انکار نہیں کر رہے کہ جو گفتگو کے بارے میں بات لکھی گئی ہے وہ سچی ہے۔ تو فیک نیوز اس پر پوری نہیں اترتی۔’ابھی یہ گفتگو پوری نہیں ہوئی تھی کہ برطانوی صحافی امینڈا کوکلی نے نعیم الحق کو ٹیگ کر کے لکھا ‘
میں اس سے اتفاق نہیں کرتی نعیم الحق۔ اتوار 14 تاریخ کو تین صحافیوں اور میں ایک آئرش صحافی پاکستان گئے ایک یوکے میڈیا وفد کا حصہ بن کر اور ہمیں وزیراعظم خان کے ساتھ انٹرویو کی پیشکش کی گئی۔ ’ہفتہ 20 تاریخ کو ہم وزیراعظم سے ملے اور ان سے ایک آن دی ریکارڈ انٹرویو کیا جو ایک گھنٹہ بیس منٹ تک چلا۔ آپ اس میں موجود تھے، فواد چوہدری موجود تھے اور سرفراز حسین بھی موجود تھے۔ تصویر ساتھ منسلک ہے۔‘اس ٹویٹ کے ساتھ امینڈا نے اپنی عمران خان کے ساتھ مصاحفہ کرتے ہوئے کی تصویر شیئر کی جس میں نعیم الحق واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔اس کے بعد امینڈا نے ایک اور ٹویٹ لکھی ‘تمام صحافیوں نے انٹرویو کو مختلف ڈیوائسز پر ریکارڈ کیا جسے ہر ایک جو کمرے میں موجود تھا اس نے دیکھا ہو گا۔ دو ڈیوائسز وزیراعظم کے سامنے موجود میز پر رکھی گئی تھیں۔ اس گفتگو کے آف دی ریکارڈ ہونے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی تھی۔’مگر نعیم الحق کہاں رکنے والے تھے۔ انہوں نے سب ٹیگ شدہ لوگوں کو چھوڑ کر امینڈا کو ٹویٹ میں مخاطب کر کے لکھا ‘براہِ کرم بتائیں کہ کس نے انٹرویو آفر کیا؟ اور ہماری سمجھ کے مطابق جان اوزبورن اپنی کتاب پیش کرنے آرہے تھے چند دوسرے افراد کے ساتھ۔ نہ ہی وزیرِاطلاعات، نہ ہی معاونِ خصوصی برائے میڈیا اور نہ ہی مجھے اس انٹرویو کے بارے میں کچھ پتا تھا۔’مگر کیا یہ بات درست ہے کہ حکومتی اہلکاروں کو اس انٹرویو کے بارے میں نہیں پتا تھا یا صرف یہ نہیں پتا تھا کہ کون آ رہا ہے؟ کیونکہ بی بی سی کے پاس دستیاب ایک دستاویز کے مطابق امینڈا مارگیرٹ کوکلی، سبلِ کِم سنگپتا اور جوناتھن سٹیل کو حکومتِ پاکستان کی سپانسرشپ پر 5 اور 9 اکتوبر کو پاکستان کا 15 دن کا ویزا جاری کیا گیا۔ جس میں لکھا کہ وہ ایک وفد کا حصہ ہیں۔حکام کی جانب سے ویزا جاری کیے جانے والے افراد کی فہرست میں ان تین صحافیوں کے نام شامل ہیں جنہیں حکومتِ پاکستان کی دعوت پر پاکستان بلایا گیا۔اب ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اس بات میں لوگ اپنے تبصرے کر کے سچ اور جھوٹ کا فیصلہ سوشل میڈیا پر ہی نہ کریں۔بختاور بھٹو نے ٹویٹ کی کہ ‘او ڈیئر پی ٹی آئی کی جانب سے ایک اور جھوٹ۔ پاکستان کے لیے مزید شرمندگی۔ مجھے نہیں پتا کہ کیسے کوئی ہمیں بحثیتِ قوم سنجیدگی سے لے گا کیونکہ اب تک ہر معاملے پر تردیدیں کی گئی ہیں جن میں سے بعض سربراہانِ مملک کی جانب سے بھی ہیں۔’ڈوبتے ہوئے ممالک بھی سرعام نہیں کہتے کہ “ہمیں پیسوں کی اشد ضرورت ہے”۔ یہ تضحیک آمیز اور ملک کیلئے بدنامی کا باعث ہوتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا یہ بیان باعث شرمندگی ہے۔صحافی طلعت حسین نے لکھا ‘ ڈوبتے ہوئے ممالک بھی سرعام نہیں کہتے کہ ‘ہمیں پیسوں کی اشد ضرورت ہے’۔ یہ تضحیک آمیز اور ملک کے لیے بدنامی کا باعث ہوتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا یہ بیان باعث شرمندگی ہے۔’منظر بشیر نے سوال کیا کہ ‘آخر کیوں ایسے لوگوں کو جنہیں آپ نہیں جانتے تھے وزیراعظم سے ملنے دیا گیا؟’سعدیہ بخاری نے پوچھا کہ ‘کوئی بھی وزیراعظم سے مل سکتا ہے؟ اور انہیں ملک کی مسائل اور دکھوں کے بارے میں بتایا جائے گا؟ قومی سلامتی اور ملک کا تشخص؟ کوئی فکر نہیں اس کی؟’یحیٰ حسیب نے نعیم الحق کو لکھا ‘بجائے اس کے کہ ہمیں یہ بتائیں کہ آپ کی انڈرسٹینڈنگ کیا تھی ہمیں یہ بتائیں کہ جو امینڈا نے رپورٹ کیا ہے وہ حقیقت میں زیربحث رہا یا نہیں؟’