لاہور (ویب ڈیسک) نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں ضیا شاہد نے وفاقی وزیر اعظم سواتی سے سوال کیا کہ آج بڑا شہرہ ہے آپ کے حوالے سے خبر کا کہ آئی جی پولیس کو واپس کر دیا اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے بھی اس پر بہت اظہار خیال کیا ہے۔
آپ کی شہرت ہمارے نزدیک ایک بڑے اصولی آدمی کی شہرت ہے۔ مجھے یاد ہے کہ آپ نے پہلی مرتبہ جے یو آئی سے بھی استعفیٰ دیا تھا کرپشن کے کسی ایشو معاملہ کے سلسلے میں۔ کیا وجہ ہوتی ہے۔ اس سارے معاملہ میں آپ کا نام تو اس طرح کے طور پر لیا جا رہا ہے کہ ہمارے سامنے آپ کا ماضی ایسا نہیں ہے۔ وفاقی وزیر اعظم سواتی نے کہا ہے کہ ایک آدمی جس نے 18 سال میں سرکاری گاڑی، پولیس کے افسر، سرکاری ٹیلی فون استعمال نہیں کیا اور اس کی جو سرکاری تنخواہ ہے غریبوں مسکینوں کو جا رہی ہے وہ بے احدی کیوں کرے گا۔ سوات ہمارے پڑوس کے اندر جو لوگ رہتے ہیں وہ فاٹا کے علاقے کے ہیں میرے گھر کے بالکل باہر جو کچے ہیں جو ان کو رجمنٹ ہوتی ہے اس کی سیڑھیوں پر رہتے ہیں۔ جمعرات کی صبح میرے چوکیداروں کے ساتھ ان کی گائے وغیرہ یہاں آ گئے تو انہوں نے کہا کہ ہمارے پودے لگے ہوئے ہیں یہ سارا تباہ کر دیا ہے۔ پہلے بھی ایسا ہوا ہے انہوں نے کہا اپنے خان کو کہہ دو کہ ہم آپ کو اور آپ کے خان کو ختم کریں گے۔
میں نے وہ دھمکی بہت سنجیدگی سے لی اور ڈی ایس پی اور ایس ایس پی بخاری کو فون کیا انہوں نے کہا کہ آئی جی کے دفتر میں ایک درخواست لکھ کر بھیج دیں۔درخواست موصول ہونے کے بعد میں نے 6 بجے آئی جی کو فون کیا اور کہا کہ یہ سنجیدہ مسئلہ ہے اس پر کاروائی کریں۔ آئی جی نے کہا کہ آپ فکر نہ کریں مگر پوری رات گزر گئی کچھ نہیں ہوا۔ جمعہ کے روز میں یو اے ای کے بزنس مین کیساتھ میٹنگ میں تھا کہ مجھے کال آئی آپکے گھر پر حملہ کر دیا گیا ہے۔خواتین سمیت 10 سے 12افراد نے میرے چوکیداروں کو کلہاڑیوں، بیلچوں اور ڈنڈوں سے مارا جو ہسپتال داخل ہیں۔ جبکہ میری چوکیداروں کو ہدایت تھی کہ انہیں ہاتھ نہیں لگانا۔ ڈیڑھ گھنٹہ آئی جی کو فون کرتا رہا مگر شام 5بجے فون اٹھانے اور حملے کے بارے جاننے کے بعد آئی جی کا سوال تھا کہ کل رات آپکو کسی نے فون نہیں کیا؟میں بطور وزیر خاص مراعات نہیں مانگ رہا ، کیا ایک عام پاکستانی کو اپنی مراعات لینے کا حق نہیں ۔ میں خود اپنے آدمیوں کو رو رہا ہوں جنکے ساتھ یہ حشر ہوا۔ وہ میرے لیے مجھ سے زیادہ قیمتی تھے.