counter easy hit

وہ اس ظلم کی شکایت کس سے کرتی؟

سات سالہ سعدیہ زندگی سے پر جوش ہوا کرتی تھی۔ ہنسنے مسکرانے والی بچی اچانک سے خاموش رہنےلگی تھی۔ پڑھائی میں بھی دن بہ دن کمزور ہوتی جا رہی تھی۔ اس کی ہر جگہ سے پڑھائی میں دلچسپی نہ لینے کی شکایات اس کی والدہ شبانہ صاحبہ کو موصول ہو رہی تھیں۔ وہ بھی پریشان تھیں کہ دن بہ دن سعدیہ پڑھائی میں کمزور کیوں ہوتی جارہی ہے؟ لیکن اس کا جواب نہ تو خود ان کے پاس تھا اور نہ ہی سعدیہ کے پاس۔ لہٰذا انہوں نے اسے سعدیہ کی لاپروائی سمجھتے ہوئے اسے ڈانٹنا شروع کردیا۔ ابھی وہ سعدیہ کو ڈانٹ ہی رہیں تھیں کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی، جب شبانہ صاحبہ نے دروازہ کھولا تو سعدیہ کے کزن ایاز گھر کے اندر تشریف لائیں جنہیں دیکھ کر سعدیہ سہم گئی۔ ایاز کے آتے ہی شبانہ صاحبہ نے سعدیہ کی پڑھائی میں غفلت کی شکایات شروع کردیں۔ شبانہ صاحبہ کی تمام گفتگو سننے کے بعد ایاز نے مسکراتے ہوئے بڑے اطمینان بخش انداز میں کہا: ”سعدیہ کو میں سمجھا دوں گا‘‘

ایاز دراصل سعدیہ کی پھوپھی کا بیٹا تھا لیکن عمر میں سعدیہ سے کوئی 18 سال بڑا تھا لہٰذا ایاز کی اور سعدیہ کے والد جمشید صاحب کی عمر میں زیادہ فرق نہ ہونے کے باعث وہ دونوں آپس میں اچھے دوست بھی تھے اور ایاز کا سعدیہ کے گھر بے تکلف آنا جانا عام بات تھی۔ سعدیہ کے والد اور والدہ ایاز کو بہت پسند کرتے تھے کیونکہ اس کے آجانے سے ان کے گھر میں رونق آجاتی تھی۔ لیکن سعدیہ ایاز کے آنے سے پریشان ہوجایا کرتی تھی کیونکہ وہ سعدیہ کو بہت ڈانٹتا تھا۔ جو بات سعدیہ اپنے والدین کی بھی نہیں سنتی تھی، اس کی ایک آواز میں سن لیتی تھی۔ یہاں تک کہ اس کی آنکھوں کے اشارے سے بھی سہم جایا کرتی تھی۔ سعدیہ کے والدین بھی ایاز کے آنے پر سعدیہ کی شکایتوں کی بھرمار اس کے سامنے کردیتے تھے تاکہ ایاز، سعدیہ کو سمجھائے۔

لیکن سعدیہ کا ڈر کوئی معمولی ڈر نہیں تھا۔ سعدیہ ایاز کے رعب سے نہیں بلکہ اس کی درندگی سے ڈرتی تھی جو وہ اس کے ساتھ اس کے والدین کے سو جانے کے بعد کیا کرتا تھا۔ جس سے سعدیہ کے والدین بےخبر تھے۔ وہ ایاز سے اتنی خوفزدہ تھی کہ کسی کو کچھ بتانے کے قابل بھی نہیں تھی بلکہ سعدیہ کو تو یہ معلوم بھی نہ تھا کہ اس کے ساتھ یہ کیا ہوتا ہے جس سے اس کی روح تک کانپ جاتی ہے۔

یہ سلسلہ کچھ عرصے تک یونہی چلتا رہا۔ آخر کار سعدیہ نے ایک دن اپنی والدہ کو سب کچھ بتانے کی ٹھان لی۔ سعدیہ جب بھی اپنی والدہ سے بات کرنا چاہتی تو وہ اس کی بات غور سے نہ سنتیں۔ کبھی اس کام میں تو کبھی اُس کام میں مصروف رہتیں۔ ان کے پاس سعدیہ کی بات سننے کی فرصت ہی نہ تھی۔ آخرکار سعدیہ نے خاموشی اختیار کرلی اور پھر کچھ سال بعد ایاز کی شادی ہوگئی۔ یوں ایاز کا سعدیہ کے گھر آنا جانا ختم ہوگیا۔ یوں سعدیہ نے سکون کا سانس لیا اور پھر وہ آہستہ آہستہ پڑھائی کے میدان میں خوب سے خوب تر ہوتی چلی گئی۔ کلاس میں فیل ہو جانے والی بچی میٹرک کے رزلٹ میں 81 فیصد نمبر لے کر کامیاب ہوئی جس پر سعدیہ کے والدین کے ساتھ ساتھ سعدیہ کے اساتذہ کو بھی یقین نہیں آرہا تھا۔ اس دن سعدیہ بہت خوش تھی اور اب وہ اپنی زندگی میں کامیابیوں کی طرف گامزن ہے۔

اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ دوسری جانب ایاز کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی جو جسمانی طور پر معذور تھی۔ شاید ایاز کو اپنے کیے کی سزا اپنی زندگی میں ہی اس بچی کی صورت میں بھگتنا پڑے گی۔

سعدیہ پر تو قدرت مہربان ہوگئی لیکن سعدیہ جیسی ہزاروں لڑکیاں آج بھی ایاز جیسے حیوان صفت انسانوں کے ہاتھوں ان کی درندگی کا شکار ہو رہی ہیں۔ بچے صرف گھر سے باہر ہی نہیں بلکہ گھر کے اندر بھی غیر محفوظ ہوتے ہیں۔ ایاز جیسے انسان ہمارے درمیان ہی پائے جاتے ہیں اور ان سے اپنے بچوں کی حفاظت کرنا تمام والدین کی اولین ذمہ داری ہے۔ لیکن افسوس آج کل والدین کے پاس فیس بک، ٹوئٹر اور ٹیلی ویژن کےلیے تو وقت ہے لیکن دو گھڑی اپنے بچوں سے گفتگو کرنے کا نہیں۔

میں اس سلسلے میں میڈیا کے کردار کو سراہنا چاہوں گی جس نے ہمارے معاشرے میں یہ آگہی دی ہے کہ بچوں کو بھی ہراساں کیا جاتا ہے ورنہ یہ سلسلہ تو عرصہ دراز سے چلا آرہا ہے۔ ایاز جیسے حیوان صفت انسان ہر دور میں ہی پائے جاتے رہے ہیں لیکن والدین کو یہ آگہی نہ تھی کہ عزت کی نگرانی صرف عورتوں کی ہی نہیں بلکہ بچوں کی بھی کرنی پڑتی ہے۔

ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ بے عزتی اور بدنامی کے خوف سے ایاز جیسے حیوانوں کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھاتا بلکہ درندگی کا شکار بننے والے ہی کو ڈرا دھمکا کر خاموش کردیا جاتا ہے۔ ایاز جیسے درندے کھلے عام گھومتے ہیں اور سعدیہ جیسی بچیوں کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے۔