سٹالن کو اپنے بارے میں مستحکم یقین تھا کہ و ہ غریبوں کی تقدیر بدلنے اور اپنے وطن کو دنیا کا طاقت ور ترین ملک بنانے کے مشن پر مامور ہے۔ اخلاقی بنیادوں پر جائز ٹھہرائے کسی مشن پر مامور افراد کے دلوں میں رحم کا کوئی خانہ نہیں ہوتا۔ سیاسی اور فکری مخالفین کو وحشیانہ اذیتوں کا نشانہ بنانا وہ تاریخی اعتبار سے اپنے لئے فرض اور واجب تصور کرتے ہیں۔ دورِ حاضر کے ٹی ٹی پی سے وابستہ صالحین کا رویہ بھی مثال کے طورپر ایسا ہی رہا ہے۔ سٹالن ہی کے دور میں ایک ہٹلر بھی تھا۔ اہداف ومقاصد اس کے بھی بہت عظیم اور تاریخ ساز بناکر دکھائے گئے تھے۔ پاک بازوں کی تاریخ سازی اور معاشرے کو ”مفسدوں“ سے پاک کرنے کی مہم اپنی سرشت میں ہمیشہ ظالمانہ ہوتی ہے۔ انسانی جذبات سے قطعاََ محروم ۔ریاستی جبر کو ”سائنسی طریقے“ سے استعمال کرنے کا ہنر سمجھاتے ہوئے سٹالن نے ایک بار ا پنے ریاستی کارندوں کو یہ سمجھایا کہ کسی ایک فرد کا قتل ”عظیم المیے“ میں بدل سکتا ہے۔ ہزاروں افراد کا بیک وقت قتل لیکن اعدادوشمار بن جاتے ہیں۔ اعدادالمیہ نہیں بناتے۔ ان کا کوئی انسانی چہرہ نہیں ہوتا۔سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ اگر کوئی حکومت اپنے ضرورت سے زیادہ مشہور ہوئے کسی ناقد کو قتل کروادے تو سکینڈل بن جاتا ہے۔ اپنے مخالفین کو لیکن ایک شیطانی گروہ ٹھہراکر اس کی پیخ کنی کی مہم چلائی جائے تو یہ ”خانہ جنگی“ تصور ہوتی ہے۔ خانہ جنگی میں بے گناہ اور سیاسی چپقلش سے لاتعلق افراد کی اموات بھی مشترکہ نقصان شمار ہوتی ہے۔ سٹالن کا سمجھایا”المیے“ اور ”اعدادوشمار“ کے مابین فرق ان دنوں مجھے ایک سعودی صحافی کے استنبول میں ہوئے قتل کے حوالے سے بہت یاد آرہا ہے۔ تقریباََ دو برس سے امریکی جہازوں اور اسلحے سے لیس سعودی فضائیہ یمن کو مستقل بمباری کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ اقوام متحدہ کے فراہم کردہ ٹھوس اعدادوشمار کے مطابق یمن پر مسلط کردہ جنگ کی وجہ سے ہزاروں بچے روزانہ کی بنیاد پر کم خوراکی اور ہیضے جیسے امراض کے باعث لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ عالمی میڈیا میں لیکن ان اموات کا سرسری ذکر تک نہیں ہوتا۔یمن میں روزانہ کی بنیاد پر جاری کم سن اور بے گناہ بچوں کی اموات کے مقابلے میں استنبول کے سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خشوگی کا قتل ہوا اور دنیا بھر میں سیاپا شروع ہوگیا۔ امریکی صدر کو بادل نخواستہ اس کا نوٹس لینا ہی پڑا۔ بنیادی وجہ اس کی یہ تھی کہ قتل ہو ا صحافی واشنگٹن پوسٹ کے لئے سعودی حکومت کے خلاف ناقدانہ کالم لکھا کرتا تھا۔ امریکی میڈیا یکسو ہوکر اس کے قتل کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور ہوا تو امریکی وزیر خارجہ کو سعودی عرب کے ہنگامی دورے پر جانا پڑا۔ شاہ سلمان اور ولی عہد سے اس کی ملاقات کے بعد ریاض نے بالآخرایک سرکاری بیان کے ذریعے اعتراف کرلیا کہ جمال خشوگی قتل ہوگیا ہے۔سعودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کی انٹیلی جنس کے چند افسران کو اطلاع ملی کہ جمال خشوگی استنبول میں ہے۔اس کو وہاں کی ایک خاتون سے شادی کرنے کے لئے سعودی سفارت خانے سے اپنی سابقہ بیوی سے طلاق کی تصدیق کرنے والی دستاویزات درکار ہیں۔ فیصلہ ہوا کہ جمال خشوگی جب یہ دستاویزات لینے آئے تو سعودی انٹیلی جنس والے اس سے ملاقات کریں۔ اس ملاقات کا مقصد صحافی کو سمجھابجھا کر وطن لوٹنے کو مائل کرنا تھا۔ جمال خشوگی اور سعودی انٹیلی جنس افسران کے درمیان ہوئے ”مذاکرات“ مگر تلخ مباحثے میں تبدیل ہوگئے۔ بحث کی تلخی میں معاملہ بگڑ گیا اور صحافی غالباََ ”گھسن مکی“ کے سبب مارا گیا۔ جمال خشوگی کے قتل کا اعتراف کرلینے کے بعد سعودی حکومت نے ترکی گئے افسران کی ان کے عہدوں سے برطرفی کے بعد مزید تفتیش کے لئے گرفتاری کا اعلان بھی کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ چند دن گزرنے کے بعد گرفتار ہوئے کارندوں کی گردن زدنی بھی ہوجائے۔ ”انصاف“ بہم ہوجائے۔”انصاف“ کی ممکنہ انداز میں یہ فراہمی لیکن نام نہاد ”عالمی ضمیر“ ہضم نہیں کر پائے گا۔ وجہ اس کی”عالمی ضمیر“ کا خلوص ہرگز نہیں بلکہ ترکی کے ”سلطان اردوان“ کی لگائی گیم ہے۔
اردوان بھی تقریباَََ سٹالن ہی کی طرح اپنے ملک کو عظیم تر بنانے کے مشن پر مامور ہے۔ اپنے خلاف ہوئی فوجی بغاوت کی ایک کوشش کو اس نے بے رحمی سے کچل ڈالا۔ اس بغاوت کو ناکام بنانے کے باوجود لیکن وہ مطمئن نہ ہوا۔ ریفرنڈم کے ذریعے صدارتی نظام متعارف کروانے کے بعد اس نے خود کو اپنے ملک کا بہت ہی بااختیار صدر منتخب کروایا۔ اس کے سیاسی مخالفین سینکڑوں کی تعداد میں جیلوں میں گل سڑرہے ہیں۔ ترکی کا میڈیا اس کے مکمل کنٹرول میں ہے۔ 140کے قریب اخبار اور جریدے بند ہوچکے ہیں۔ تمام ٹیلی وژن چینلوں کو اردوان کے امیر کبیردوستوں نے خرید کر وہاں سے سرکش صحافیوں کو نکال دیا ہے۔ سو سے زیادہ صحافی ان دنوں ترکی کی ہائی سکیورٹی جیلوں میں بند ہیں۔ ان کے خلاف وطن سے غداری اور تخریب کاری کو فروغ دینے کے الزامات کے تحت مقدمات چلائے جارہے ہیں۔ اس سب کے باوجود ”سلطان اردوان“ جمال خشوگی کے قتل کو بہت ہی مو¿ثر انداز میں استعمال کرتے ہوئے خود کو ”آزادی¿ صحافت“ کا محافظ وعلم بردار بنائے ہوئے ہے۔جمال خشوگی کے قتل پر ”مٹی ڈالنے“ کے لئے سلطان اردوان کو خاموش کروانا اشد ضروری ہے۔امریکہ اور سعودی عرب کو اس سے مک مکا کرنا ہوگا۔
پہلا قدم اس ضمن میں امریکہ کو اٹھانا ہوگا۔ حال ہی میں امریکہ نے ترکی کی وزارتِ داخلہ پر ایک امریکی پادری کو گرفتار کرنے کی وجہ سے چند پابندیوں کا نشانہ بنایا۔ان پابندیوں کا اعلان ہوتے ہی ترکی کی کرنسی-لیرا- پنجابی زبان والی ”لیرولیر“ ہوگئی۔ اس کی قدر میں 40فی صد تک کمی نے ترکی کو سنگین معاشی بحران سے دو چار کردیا۔جمال خشوگی کے قتل کو ”ذرائع“ کے ذریعے ڈرامائی انداز میں قسط وار دنیا کے سامنے لاتے ہوئے اردوان حکومت نے خاموشی سے امریکی پادری کو رہا کرکے ٹرمپ انتظامیہ کو رام کرلیا ہے۔ اب وہ اپنے ان بینکوں اور بینک کاروں کی خلاصی چاہتا ہے جنہیں امریکہ نے ایران کے ساتھ تیل کے بدلے کاروبارجاری رکھنے کے طریقے ایجاد کرنے کی بنا پر مختلف النوع پابندیوں کا نشانہ بنارکھا ہے۔ امریکہ سے اپنی خاموشی کی قیمت وصول کرنے کے بعد ترکی سعودی عرب سے الگ نوعیت کا مک مکا چاہے گا۔ قطر کے مقابلے میں سعودی عرب کا ساتھ دینے کو وہ تیار نہیں۔ ایران کے ساتھ بھی وہ اپنے تجارتی تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ اردوان کو ان دو ممالک سے دور رکھنے کے لئے سعودی عرب کو بہت بھاری خراج دینا ہوگا۔ یہ خراج ادا نہ ہوا تو اردوان سعودی عرب کو ”مسلم اُمہ“ کا حتمی محافظ وسرپرست کی حیثیت میں ابھرنے نہیں دے گا۔ ترپ کے سارے پتے فی الوقت اردوان کے پاس ہیں۔ وہ انہیں بہت مہارت سے کھیل رہا ہے۔ جمال خشوگی کا قتل نعمت کی صورت اس کی گود میں گرا ہے۔وہ اس نعمت کو بھاری قیمت حاصل کئے بغیر اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دے گا۔