اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت بڑھانے کا اختیار سنٹرل بینک کے پاس ہوتا ہے، چونکہ وہ لوگ ووٹ لے کر نہیں آئے ہوتے تو اس لیے اس کی ذمہ داری حکومت پر پڑتی ہے۔
پٹرولیم مصنوعات اور ڈالر کی قیمتوں کے حوالے سے طلب کی گئی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ ڈالر 134 روپے کا تھا لیکن اب 139 روپے کی سطح پر آچکا ہے۔ ایکسچینج ریٹ کیلئے ہمارے نظام میں مانیٹری پالیسی کا اختیار سنٹرل بینک کا ہوتا ہے اور وہی اس کے فیصلے کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلا سال ختم ہوا تو 19 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ تھا۔ اس کے باوجود بیرونی قرضے 86 ارب ڈالر کے تھے جو بڑھ کر 95 ارب ڈالر پر چلے گئے۔
اسد عمر نے گزشتہ حکومت میں ڈالر کی قیمت برقرار رہنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ زر مبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر گئے کیونکہ ڈالر کی مانگ زیادہ ہے اور سپلائی کم ہورہی ہے تو یا تو ڈالر کی قیمت میں زیادتی ہوگی یا ریاست اپنے وسائل استعمال کرکے ڈالر دیتی رہے گی۔ جب آپ روپے کی قدر کو مصنوعی طریقے سے یعنی پیداواری قوت بڑھائے بغیر بیلنس کرتے رہیں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ باہر کی چیزیں سستی ہوتی چلی جائیں گی۔ آپ نے پاکستان کے ٹیکس پیئر کا پیسہ استعمال کرکے غیر ملکی تاجر اور صنعتکار کو سبسڈی دی جبکہ اپنے لوگوں پر ٹیکس لگادیا۔ ادھر سے قرضے لیتے جارہے ہیں اور وہی قرضے روپے کی قدر برقرار رکھنے کیلئے استعمال کرتے جارہے ہیں۔
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کے حل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ جب تک آپ کی بنیادیں مضبوط نہیں ہوں گی تو ڈالر کی طلب اور رسد میں فرق پڑتا رہے گا اور اس کی قیمت آپ ایک یا دوسری شکل میں ادا کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ روپے کی قدر میں استحکام لانے کیلئے ہم نے سمندر پار پاکستانیوں سے پیسہ لانے کیلئے آسانیاں پیدا کرنی ہیں اور اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا ہے کیونکہ پچھلے 5 سال میں ہماری برآمدات کی کمپنیاں بند ہوئی ہیں۔ فیصل آباد میں 5 لاکھ مزدور بے روزگار ہوئے اور فیکٹریاں لوہے کے داموں بکیں۔