لاہور (ویب ڈیسک) میرے لیے یہ سوال اہم تھا کہ آخر عثمان بزدار کو ہٹانے کی کہانی کہاں سے شروع ہوئی۔ اس کہانی کی تلاش میں میں نے بہت لوگوں سے بات کی۔ ارباب اختیار سے اور عثمان بزدار کے حامیوں سے بات کی۔ عثمان بزدار کے مخالفین سے بھی بات کی۔ اپوزیشن رہنماؤں سے بات کی۔ نامور کالم نگار مزمل سہروردی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اہم سول بیوروکریٹس سے بھی بات۔ خفیہ خبریں رکھنے والوں سے بھی بات۔ سوال ایک ہی تھا کہ آخر عثمان بزدار کو ہٹانے کا شور کہاں سے شروع ہوا۔ کون تھا اس کے پیچھے۔ اس ساری تحقیق میں ایک بات جو سامنے آئی ہے۔ وہ دلچسپ ہے۔ ویسے تو جمہوریت میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان معرکہ ہوتا ہے۔دونوں ایک دوسرے کے ساتھ نبرد آزما ہوتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں اس وقت صورتحال مختلف ہے۔ یہاں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کوئی معرکہ نہیں ہورہا۔ بلکہ اپوزیشن بھی آپس میں لڑ رہی ہے۔ حکومت بھی آپس میں لڑ رہی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ معرکہ آرائی کرنے کے بجائے آپس میں ہی لڑ رہے ہیں۔ حکومتی دھڑوں میں آپسی لڑائی روزانہ حکومت کو کمزور کر رہی ہے۔ جب کہ اپوزیشن کے دھڑوں کی آپسی لڑائی نے اپوزیشن کو بھی کمزور کر دیا ہے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ ساری کہانی عثمان بزدار کے پہلے انٹرویو سے شروع ہوئی۔ اس انٹرویو کو کافی پذیر آئی ملی۔ اسے آن لائن بھی کافی دیکھا گیا۔ ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں نے دیکھا۔ کمنٹس بھی مثبت بھی آئے۔ لیکن اس انٹرویو کے چوبیس گھنٹے کے اندر سوشل میڈیا پر ایک طوفان آگیا۔ ٹوئٹر پر عثمان بزدار کے خلاف ٹاپ ٹرینڈ بن گئے۔ چوبیس گھنٹوں میں کئی ہزار ٹوئٹ بن گئے۔ فیس بک پر پوسٹ بن گئی۔ اس طرح سوشل میڈیا کے سارے محاذ ایک دم گر م ہوگئے۔ ایک طوفان آگیا۔ سوشل میڈیا پر ہر طرف عثمان بزدار کو ہٹانے کی بازگشت شروع ہو گئی۔ ہزاروں ٹوئٹس اور پوسٹس نے ایک خاص ماحول بنا دیا۔ پاکستان میں اب صورتحال یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ٹرینڈ کا اثر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی نظر آتا ہے۔ عثمان بزدار کے پہلے ٹی وی انٹرویو کے بعد چوبیس گھنٹوں میں ہونے والے ہزاروں ٹوئٹس نے عثمان بزدار کی تبدیلی کے حوالے سے ایک ماحول بنا دیا۔ سوشل میڈیا پر طوفان برپا کرنے والوں نے اپنے ٹوئٹس کے فالو اپ میں رحیم یار خان میں صلاح الدین کی پولیس حراست میں قتل کی ویڈیو کو بھی استعمال کرنا شروع کیا۔ یہ ویڈیو بھی انھی اکاؤنٹس سے وائرل کی گئی جن سے عثمان بزدار کو ہٹانے کی مہم چلائی جا رہی تھی۔ میں صلاح الدین کی پولیس حراست میں قتل کی حمایت نہیں کر رہا۔ یہ ایک افسوسناک واقعہ تھا۔ لیکن اس کو عثمان بزدار کو ہٹانے کے لیے استعمال کرنا بھی درست نہیں ہے۔ یہ ٹوئٹس ایک ماحول بنا رہے تھے کہ صلاح الدین کے قتل کا مقدمہ عثمان بزدار پر درج کر کے انھیں ہٹا دیا جائے۔ شائد اس سوشل میڈیا مہم کے بنانے والوں کے پاس عثمان بزدار کے خلاف کوئی باقاعدہ اسکینڈل نہیں تھا ۔کوئی مالی بد عنوانی بھی سامنے نہیں تھی۔ بطور وزیر اعلیٰ ان کی کوئی نا اہلی بھی نہیں تھی ۔ اس لیے اس واقعہ کا ہی استعمال شروع کر دیا گیا۔میں نے اس سوشل میڈیا مہم کی تحقیق شروع کی تو تفصیلات مزید حیران کن تھیں۔ یہ ٹوئٹس اور ٹوئٹر ٹرینڈ اپنوں کے ہی پیدا کردہ تھے۔ یہ وہی اکاؤنٹس ہیں جہاں سے شریف فیملی اور زرداری خاندان کے خلاف ٹرینڈ سامنے آتے ہیں۔ یہ وہی اکاؤنٹس ہیں جنہوں نے اسد عمر کو بھی غدار بنانا شروع کر دیا گیا تھا اور جب اسد عمر نے دیکھا کہ سوشل میڈیا پر انھیں تحریک انصاف کے غدار کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا۔ وہ واپس آگئے۔ تحریک انصاف کے قائدین اور عمران خان خود مانتے ہیں کہ تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے میں سوشل میڈیا مہم کا کلیدی کردار ہے۔ جس طرح تحریک انصاف نے سوشل میڈیا پراپنے سیاسی مخالفین کو چاروں شانے چت کیا اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اسی وجہ سے مریم نواز نے ن لیگ کی سوشل میڈیا مہم خود سنبھالی۔ انھیں بھی کامیابی ملی۔ بہر حال سوشل میڈیا کی برتری کے سب معترف ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر’’بزدار ہٹاؤ۔ پنجاب بچاؤ‘‘ مہم کہاں سے شروع ہوئی ہے۔ یہ ٹرینڈ کس نے بنایا ہے۔ یہ حقیقت شائد کھل کر سامنے آگئی ہے۔ اسی لیے حکومت پنجاب کے ترجمان شہباز گل نے وزیر اعظم عمران خان کا پیغام ایک پریس کانفرنس میں دیا ہے کہ جس کو عثمان بزدار پسند نہیں وہ پارٹی چھوڑ دے۔ شہباز گل کے مطابق عمران خان کا پیغام ہے کہ جس کو عثمان بزدار کی شکل پسند نہیں۔ ان کے بال پسند نہیں وہ پارٹی چھوڑ دے۔شائد یہ پیغام سوشل میڈیا پر سازش کرنے والوں کے لیے تھا۔ شہباز گل کی پریس کانفرنس اس سازش کی حقیقت کھل کر بیان کر رہی تھی۔ اسی لیے عمران خان نے کہا ہے کہ جب تک میں وزیر اعظم ہوں تب تک عثمان بزدار وزیر اعلیٰ رہیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک سال میں عمران خان سمجھ گئے ہیں کہ عثمان بزدار کے خلاف تمام سازشیں باہر سے نہیں ہو رہی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف میں ہر وزیر وزیر اعلیٰ بننے کا امیدوار بنا ہوا ہے۔دو تواس چکر میں نیب کی گرفت میں بھی آگئے ہیں۔ کچھ کی وزارتیں تبدیل ہو گئی ہیں۔ لیکن پھر بھی ان کو سمجھ نہیں آرہی ۔عمران خان کو عثمان بزدار کی کارکردگی کا علم ہے۔ اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ کارکردگی تحریک انصاف عوام کے سامنے لانے میں ناکام رہی ہے۔ اس دفعہ ایک پراپیگنڈہ یہ بھی کیا گیا کہ اب عثمان بزدار کو ہٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ پراپیگنڈہ بھی اپنی موت آپ مر گیا ہے۔کیونکہ اس میں کوئی حقیقت نہیں تھی۔ عثمان بزدار خاموش ہیں۔ ان کا حوصلہ ہے ورنہ یہ تمام ٹوئٹس کی کاپیاں میڈیا میں جاری کی جا سکتی ہیں۔ ان ٹوئٹر اکاوئنٹس کا پروفائل بھی میڈیا کے ساتھ شیئر کیا جا سکتا ہے۔ ان کی ہسٹری بھی سب کے سامنے لائی جا سکتی ہے۔ یہ بھی سامنے آ سکتا ہے کہ یہ اکاؤنٹس کس کس میڈیا سیل سے چلائے جا رہے ہیں۔ اس میڈیا سیل کا خرچہ کون برداشت کر رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ ن لیگ کے بھی اکاؤنٹس نے اس ٹرینڈ کو آگے بڑھایا ہے۔ وہ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ لیکن ان کی جانب سے نہ تو یہ شروع کیا گیا۔ اور نہ ہی انھوں نے سنجیدگی سے اس کو آگے بڑھایا۔ عثمان بزدا ر کے لیے حفیظ جالندھری کا ایک شعر حاضر ہے۔ دیکھا جو تیر کھا کے تیر کمین گاہ کی طرف ۔۔ اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی۔