ججز اور سرکاری افسران کی دوہری شہریت سے متعلق کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے پوچھا کہ رﺅف کلاسرا کہاں ہیں؟ میں چیف جسٹس کا شکرگزار ہوں کہ وہ ہمارے پروگرام کی کوئی خبرسنجیدہ لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے سماعت کے دوران کہا کہ رﺅف کلاسرا کہتے رہتے ہیں کہ چیف جسٹس کچھ نہیں کرتے حالانکہ میرا کہنے کا یہ مطلب نہیں تھا۔میرا کہنے کا مطلب تھا کہ ابھی کچھ مزید کرنے کی ضرورت ہے ۔ آپ نے ہمیں اُمیدیں دی ہیں۔آپ سے پہلے چیف جسٹس کے پاس بھی موقع تھا لیکن کسی نے کچھ نہیں کیا۔ آپ نے خود ہمیں اُمیدیں دیں ، آپ نے کہا میں کام کروں گا۔ یہ کہہ کر آپ نے ہماری اُمیدیں بڑھا دی ہیں۔چیف جسٹس نے دوہری شہریت پر جرنیلوں کی بھی بات کی اور کہا کہ کیا اس معاملے پر کوئی قانون نہیں ہو سکتا۔رؤف کلاسرا نے کہا کہ ہمارے یہاں ٹاپ کے افسران کے پاس بھی دوہری شہریت ہے ، نادرا میں ، دفتر خارجہ ، وزارت داخلہ میں بھی کئی افسران کی دوہری شہریت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن کی سب سے بڑی وجہ ہی دوہری شہریت ہے۔ چیف جسٹس نے سماعت کے دوران پوچھا کہ جنرل راحیل اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی شجاع پاشا بیرون ملک ملازمت کر کے آ گئے ہیں۔ رؤف کلاسرا نے انکشاف کیا کہ جنرل پاشا تو ایک سینیٹر وقار کی ملازمت کر رہے ہیں، جنرل پاشا سینیٹر وقار کی ہاؤسنگ سوسائٹی کے ملازم ہیں، جبکہ سینیٹر وقار اور ان کے پورے خاندان کے بہت سے اسکینڈلز ہیں اور ان پر کئی مقدمات بھی ہیں۔ڈی جی آئی ایس آئی ہونا ایک بہت بڑی بات ہے لیکن وہ جا کر کسی سینیٹر کے ہاں ملازمت کر رہے ہیں، ہمیں چیف جسٹس صاحب سے بڑی اُمیدیں ہیں، جب تک بیوروکریسی کے لوگوں کی دوہری شہریت ہے تب تک اس ملک سے کرپشن ختم نہیں ہو گی۔ آپ ایک کام کریں کہ جتنے لوگوں کی فہرست ہے، ان میں سے پندرہ لوگوں کو بلوالیں ان کی تنخواہ اورٹیکس ریٹرن کی تفصیلات منگوا لیں اور ان سے پوچھ لیں کہ آپ کو یہ دوہری شہریت کیسے ملی اور ان کے بچے کیسے باہر پڑھ رہے ہیں؟ آپ ان کو فنڈ کیسے کرتے ہیں، آپ ان سے ملنے کیسے جاتے ہیں؟ آپ نے تین سال وہاں کیسے گزارے ہیں اور آپ کے پاس پیسے کہاں سے آئے؟ آپ نے چھُٹیاں کیسے لی ہیں۔ابھی حال ہی میں ایک ڈی آئی جی نے یہاں سے لُوٹ مار کر کے 16 لاکھ ڈالر کا گھر لے لیا ہے اور اب ایک سال کی چھُٹی بھی لے لی ہے، یہ تو کرپشن کا حال ہے۔