ہم نے 1958ء میں پہلی دفعہ آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اُس وقت 1ڈالر 3روپے کا تھا جو 1965ءکی پاک بھارت جنگ کے بعد پاکستان کی بیرونی امداد چند ماہ کے لیے بند ہونے کی وجہ سے بڑھ کر 7روپے تک چلا گیا، لیکن معاشی حالات قدرے مضبوط ہی تھے اور تاریخ گواہ ہے کہ 1972ءتک ہم قرضوں کی ادائیگی کرسکتے تھے۔ سود کیساتھ اصل زر بھی واپس کرنے کی پوزیشن میں تھے۔1973ءمیں بھٹو کے دور حکومت میں چونکہ بھٹو مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کی وجہ سے خاصے دباﺅ کا شکار تھے اس لیے انہوں نے قرضوں پر زیادہ اکتفاءنہ کیا اور اپنے دور اقتدار میں محض 0.3ڈالر ہی بیرونی قرض لیا، پھر 1980 میں جنرل ضیاءالحق کے دور میں 2 ارب ڈالر کا لیا گیا قرض اسی دور میں واپس کیا گیا۔ اُن کے دور میں افغان جنگ کی وجہ سے ڈالر کی خاصی ریل پیل تھی اس لیے انہیں مزید قرض لینے کی کچھ خاص ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ پھر1988 ءسے جمہوریت کا ”سنہری“دور محترمہ بے نظیر بھٹو کے وزیر اعظم بننے سے شروع ہوتا ہے ، جب ڈالر 18روپے کا تھا۔ اور اسی سال دسمبر1988ءمیں محترمہ بے نظیر کی قیادت میں عالمی اداروں سے قرض کے دو پروگرام حاصل کیے گئے جو 1990 اور 1992 میں ختم ہوئے۔ ان پروگراموں کے ختم ہونے سے مراد یہ کہ قرض واپس کرنے کی مدت ختم ہوئی مگر قرض واپس نہ کیا گیا، اسی طرح نومبر 1990ءمیں نواز شریف کا پہلا دور حکومت شروع ہوا، انہوں نے بھی 1993ءمیں ایک ارب ڈالر کے قریب بیرونی قرض لیا ۔1994میں محترمہ کے دوسرے دور حکومت میں آئی ایم ایف کا پھر در کھٹکھٹایاگیا، یہ وہ دور تھا جب قرض واپس کرنے کے بجائے بین الاقوامی اداروں کے چنگل میں پاکستان کے پھنسنے کا آغاز ہوچکا تھا۔ اور اصل رقم کے بجائے پاکستان محض اوپر کا
Post Views - پوسٹ کو دیکھا گیا: 37
About MH Kazmi
Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276