شیر شاہ سوری نے لاہور کے متعلق کہا تھا کہ لاہور ہر جاتے کو بھول جاتا ہے اور ہر آنے والے کو ویلکم کرتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ لاہور یوں کی بھٹو کے لئے محبت لاڑکانہ کو بھی مات دے دیتی تھی۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ پورے لاہور سے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔ بھٹو کے رومانس کی جگہ کشمیری شریفوں نے لے لی۔ 2013ء کے الیکشن میں 28 سال کی وفاداری کے بعد لاہور نے پہلی دفعہ شریفوں سے بغاوت کی مدھم سی گھنٹی بجائی جو اب دیوقامت خطرے کی صورت سب کے سامنے ہے۔
لاہور کی سیاست کا دارومدا ر ہمیشہ سے دوو باتوں پر رہا ہے۔ لیڈر سے ووٹرز کی محبت اور الیکشن ڈے پر چھٹی مناتے اور سوتے ووٹر کو جگا کر پولنگ سٹیشن تک پہنچانا۔ 2018 کے الیکشن میں بھی یہی دو فیکٹر فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ میں نے پچھلے ایک ماہ میں لاہور کے مختلف حصوں سے گزرتے ہوئے قریب پانچ سو لوگوں سے یہ سوال پوچھا کہ آئندہ الیکشن میں وہ کسے ووٹ دیں گے۔ ووٹر مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی میں کم و بیش یکساں طور پر منقسم نظر آیا۔ مسلم لیگ ن کے امیدوار زیادہ اثرورسوخ اور تجربے کے حامل ہیں تو تحریک انصاف کے امیدوار بہت متحرک اور پرجوش۔ پرجوش اور گھمسان کے ضمنی اور بلدیاتی انتخابات کی مشق کے بعد 2013ء کے مقابلے میں 2018ء میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی الیکشن ڈے مینیجمنٹ میں گیپ خاصا کم رہ گیا ہے۔
لاہور کو انتخابی سیاست کے لحاظ سے تین زونز میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پرانا لاہور زون، نیا لاہور زون اور لاہور کے گردونواح کے دیہی اور نیم شہری علاقہ جات۔
پرانا لاہورزون کے چھے میں سے تین حلقے ایسے ہیں جہاں مسلم لیگ ن کوکم از کم اس الیکشن میں تو ہرانا نا ممکن ہے۔ ان میں بھاٹی گیٹ اندرون لاہور سے حمزہ شہباز، اقبال پورہ اور حاجی پورہ اندرون لاہور سے ملک پرویز جبکہ اندرون شہر ہربنس پورہ سے شیخ روحیل اصغر کی جیت یقینی ہے۔ چوبرجی اور بابو سابو بازار کے حلقہ سے تحریک انصاف کے حماد اظہر نے 2013ء میں اپنے پہلے ہی الیکشن میں 70 ہزار ووٹ حاصل کر کے سب کو حیران کر دیا تھا۔ اس دفعہ اس حلقہ سے حماد اظہر کی جیت کے امکانات روشن ہیں۔ سمن آباد اور گڑھی شاہو میں سپیکر ایاز صادق کا مقابلہ علیم خان سے ہو گا۔ اس حلقے میں بھی علیم خان کی پوزیشن ایاز صادق سے بہتر ہے کیونکہ پچھلے پانچ سال میں اس حلقے میں علیم خان کی سیاسی سرگرمیاں ایاز صادق ے مقابلے میں کافی زیادہ رہیں۔ گوالمنڈی کا حلقہ بھی اندرون لاہور کی مناسبت سے مسلم لیگ ن کا مضبوط قلعہ ہونا چاہئے تھا مگر اس حلقے میں یاسمین راشد نے سخت محنت اورمنظم کمپین سے مریم نواز کے لئے بھرپور چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔ یہاں پختون برادری کی بڑی تعداد بھی مریم نواز کے لئے سنجیدہ چیلنج ہے۔ اس حلقے کے نتایج کے متعلق کوئی بھی پیشن گوئی یقین سے نہیں کی جا سکتی۔ پرانا لاہور زون کی چھے نشستوں میں سے مجموعی طور پر تین نشستوں پر مسلم لیگ ن، جبکہ دو پر تحریک انصاف کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ گوالمنڈی کی نشست کو ففٹی ففٹی قرار دیا جا سکتا ہے۔
نیا لاہور زون قومی اسمبلی کے چار حلقوں پر مشتمل ہے۔ ڈیفینس سے عمرا ن خان اور سعد رفیق کا مقابلہ ہو گا جس میں سعد رفیق کے جیتنے کے چانسز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ گلبرگ اور ماڈل ٹاون کے حلقے سے شفقت محمود پی ٹی آئی کے امیدوار ہوں گے۔ یہاں پر پی ٹی آئی کی بطور جماعت بھرپور مقبولیت کی وجہ سے شفقت محمود کے مقابلے میں سلمان رفیق کے جیتنے کے امکانات اس بار بھی کافی کم ہیں۔ ٹائون شپ اور قینچی کے حلقہ میں مسلم لیگ ن کے وحید عالم اور پی ٹی آئی کے اعجاز چودھری کے درمیان گھمسان کا رن پڑے گا۔ یہاں سے 2013ء کے الیکشن میں وحید عالم پی ٹی آئی کے عاطف چودھری کو بھاری مارجن سے ہرانے میں کامیاب رہے تھے مگر اس بار ان کا مقابلہ زیادہ متحرک امیدوار اعجاز چودھری سے ہے۔ گرائونڈ حقائق کے مطابق وحید عالم کو اب بھی اعجاز چودھری پر چند پوائنٹس کی برتری حاصل ہے۔ جوہر ٹاون اور ملحقہ علاقوں کی نشست پر ہمیشہ کھوکھر برادری کے امیدواروں کے درمیان ہی مقابلہ ہوتا آیا ہے۔ اس نشست پر 2013ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے کرامت کھوکھر نے مسلم لیگ ن کے افضل کھوکھر کے مقابلہ میں 80 ہزار ووٹ حاصل کئے تھے۔ نئی حلقہ بندیوں کے بعد یہاں سے کرامت کھوکھر کے جیتنے کا امکانات روشن ہیں۔ نیا لاہور زون کی چار نشستوں میں سے مجموعی طور پر تین پر تحریک انصاف جبکہ ایک پر مسلم لیگ ن کے جیتنے کے امکانات روشن ہیں۔
لاہور کے گردونواح کے دیہی اور نیم شہری علاقہ جات قومی اسمبلی کی چار نشستوں پر مشتمل ہیں۔ گجومتا کی نشست سے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف ناقابل شکست ہیں۔ شاہدرہ سے ملک ریاض 2013ء کے الیکشن میں بھاری مارجن سے جیتنے میں کامیاب رہے مگر تب ان کے مقابلے میں غیر متحرک امیدوار حامد زمان تھے۔ اب انہیں چوھری سرور کا چیلنج درپیش ہے۔ چودھری سرور نے پچھلے تین سال میں اس حلقے میں کافی محنت کی ہے۔ ارائیں برداری کی بڑی تعداد کی حمایت بھی چودھری سرور کو حاصل ہے۔ الیکشن ڈے مینیجمنٹ اور جوڑتوڑکی سیاست بھی چودھری سرور سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ بظاہرشاہدرہ کی نشست پر چودھری سرور اور ملک ریاض کے درمیان مقابلہ ففٹی ففٹی ہے۔ واہگہ کی نشست پر 2013ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ن نے بھاری مارجن سے فتح حاصل کی تھی مگر اس کی بڑی وجہ اس حلقے سے دو دفعہ منتخب ہونے والے ڈیال خاندان کا الیکشن میں شرکت نہ کرنا تھا۔ اس دفعہ اعجاز ڈیال پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں اور سیال شوکت بٹ کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بہت سے تجزیہ نگار تو اس نشست پر اعجاز ڈیال کو فیورٹ قرار دے رہے ہیں مگر میرے نزدیک اس نشست پر بھی میچ ففٹی ففٹی ہی ہے۔ اس زون کی چوتھی اور آخری نشست رائیونڈ کی ہے۔ پی ٹی آئی کے امیدوار ظہیر عباس کھوکھر کے مقابلہ میں ن لیگ نے ابھی تک اپنے امیدوار کا اعلان نہیں کیا کیونکہ یہ نئی حلقہ بندیوں کے بعد لاہور کو اضافی ملنے والی نشست ہے۔ یہاں کھوکھر برادری کا کافی اثرورسوخ ہے اس لئے امید یہی ہے کہ مسلم لیگ ن بھی کسی کھوکھر امیدوار کو ہی ٹکٹ دے گی۔ بہرحال اس نشست کے متعلق بھی ابھی کچھ نہیں کہا جس سکتا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ مجموعی طور پر اس زون کی چار نشستوں میں سے ایک پر مسلم لیگ ن فیورٹ جبکہ باقی تین نشستوں پر مقابلہ ٹائی ہے۔
الیکشن میں تین ماہ سے بھی کم کاعرصہ باقی ہے۔ لاہور کی 14 میں سے 5 نشستوں پر مسلم لیگ ن جبکہ 5 نشستوں پر پی ٹی آئی فیورٹ ہے۔ تخت لاہور پر اگلے چند ماہ بعد کون سی جماعت براجمان ہو گی اس کا فیصلہ وہ چار حلقے کریں گے جہاں میچ برابر چل رہا ہے۔ اگلے تیس دن کی سیاسی سرگرمیاں اور پیش رفت ان چار حلقوں پر دونوں جماعتوں کی پوزیشن مزید واضح کر دے گی۔