لندن کے سیوائے ہوٹل کے مالک اور جریدے فوربس کے مطابق سترہ ارب ڈالر کے اثاثے رکھنے والے شہزادہ الولید بن طلال دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہیں۔
شہزادہ الولید کو حراست میں لیے جانے کی خبر آنے کے بعد کنگڈم ہولڈنگ نامی انوسٹمنٹ کمپنی کے حصص کی قدر میں 9.9 اعشاریہ فیصد کمی ہوئی۔ کنگڈم ہولڈنگ کے مالک بھی شہزادہ الولید ہیں۔ یہ کمپنی سعودی عرب کی اہم ترین انویسٹمنٹ کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ ٹوئٹر اور ایپل کے علاوہ سٹی گروپ بینک، فور سیزنس ہوٹلوں کے سلسلے اور روپرٹ مرڈوک کی نیوز کارپوریشن میں بھی اس کمپنی نے سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ شہزادہ الولید بن طلال اپنی کمپنیوں میں خواتین کو نوکریاں دینے کی وجہ سے بھی مشہور رہے ہیں۔ ان کے عملے میں دو تہائی خواتین ہیں۔
لیکن وہ اپنی سو ملین ڈالر مالیت کی ان تفریح گاہوں کی وجہ سے بھی جانے جاتے ہیں جو انہوں نے صحرا میں بنائی ہوئی ہیں اور جہاں انہوں نے پستہ قد لوگوں کو رکھا ہوا ہے تا کہ وہ آنے والوں کو تفریح فراہم کر سکیں۔
دو سال قبل شہزادہ الولید نے ان پائلٹوں کو مہنگی گاڑیاں دینے کی پیشکش کی تھی جو پڑوسی ملک یمن پر بمباری میں حصہ لے رہے ہیں۔
چند برس قبل انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک ہوٹل اور ایک پرآسائش کشتی کو خرید لیا تھا۔ اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ سیاست میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ لیکن بعد میں ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ کے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے فیصلے پر انہوں نے ٹوئٹر پر ان سے لڑائی کی۔
شہزادہ الولید بن طلال نے ٹوئٹ کی ‘ تم نہ صرف ریپبلیکن پارٹی کے لیے تذلیل کا باعث ہو بلکہ پورے امریکہ کے لیے بھی۔ امریکہ کی صدارت کی دوڑ سے دستبردار ہو جاؤ کیونکہ تم کبھی نہیں جیت سکتے۔’ جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے شہزادہ الولید کی دولت کے ذرائع کا مذاق اڑایا۔ ‘احمق شہزادہ اپنے باپ کی دولت سے امریکہ کے سیاستدانوں کو قابو کرنا چاہتا ہے۔ جب میں منتخب ہو جاؤں گا تو وہ ایسا نہیں کر سکے گا۔’ لیکن بعد میں جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہو گئے تو شہزادے نے اپنی ٹوئٹ کے ذریعے انہیں مبارکباد بھی دی۔ ‘نو منتخب صدر ماضی میں جو بھی اختلافات رہے ہوں امریکہ نے فیصلہ دے دیا ہے۔ آپ کو صدارت کی مبارکباد اور نیک خواہشات۔’
سعودی عرب میں سنیچر کی رات کو ہونے والے واقعات ملک میں کسی بھونچال سے کم نہیں۔ بتیس برس کے شہزادہ محمد بن سلمان نے ایک منظم اور طے شدہ منصوبے کے تحت ملک پر اپنے مکمل کنٹرول کے لیے بظاہر آخری رکاوٹوں کو بھی عبور کر لیا ہے۔
شہزادوں، وزرا اور ارب پتی کاروباری شخصیت شہزادہ الولید بن طلال کی گرفتاری جیسے اقدامات کو دنیا کو بدعنوانی کے خلاف ایک مہم کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ لیکن ان واقعات سے سعودی عوام حیرت زدہ ہیں جو اچانک تبدیلیاں دیکھنے کے عادی نہیں ہیں۔