پاکستان کے شمالی اور مغربی پٹی سے متعلق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تشویش بالکل بجا ہے ۔ سیاسی رہنمائوں کو توتومیں میں سے فرصت نہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ مجھے کیوں نکالا اور کوئی وزیراعظم بننے کے لئے پاگل ہورہا ہے۔ میڈیا ان سیاسی اور عدالتی ڈراموں کی رپورٹنگ میں جتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پختون پٹی میں آگ و خون کے نئے کھیل کی بساط بچھتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔ ایسا کھیل جو ماضی کے کھیلوں سے زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہے ۔ پورے پاکستان کے لئے بھی اور سب سے زیادہ خود پختونوں کے لئے بھی ۔ لیکن سیاسی قائدین اور میڈیا میں سے کوئی اس طرف توجہ دے رہا ہے اور نہ کوئی اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کی سنجیدہ کوشش کررہا ہے ۔ دوسری طرف واشنگٹن سے لے کر دہلی تک اور کابل سے لے کر اوسلو تک ، اس آگ کو گرمانے کی کوششیں زوروں پر ہیں ۔
انسانی حقوق کی پامالیوں کا معاملہ ہو ، پھاٹکوں کا ، مسنگ پرسنز کا یا پھر تعمیر نو کے کاموں میں ریاستی تساہل کا ،قبائلی اور پختون نوجوانوں کے بیشتر مطالبات اور خدشات بالکل درست ہیں لیکن ان کے بعض نعروں ، بعض سرگرمیوں اور بعض اقدامات کے حوالے سے فوج اور ریاستی اداروں
کی تشویش بھی بجا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فاٹا اور پختونخوا کے عوام نے پہلے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں اور پھر ملٹری آپریشنوں کی وجہ سے جو صعوبتیں برداشت کیں ، اس کا دنیااور باقی پاکستان کے لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سیکورٹی فورسز کے جوانوں اور افسران نے ان علاقوں میں جو قربانیاں دیں ، ان کی بھی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔ فوج کا اپنا مزاج اور اپنا طریقہ کار ہے ۔ جنگی حالات میں ان کا رویہ اور بھی سخت ہوجاتا ہے ۔ یقیناََ سیکورٹی فورسز نے بھی گزشتہ سالوں میں کئی غلطیاں کی ہیں لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نیک محمد ، بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود اور مولانا فضل اللہ جیسے بعض پختونوں نے بھی ریاست کے خلاف بندوق اٹھانے میں پہل کی اور خود پختونوں کو بھی ہزاروں کی تعداد میں قتل کیا ۔ اگر عسکری قیادت نے تزویراتی گہرائی کے فلسفے کی بنیاد پر ماضی میں بعض بلنڈرز کا ارتکاب کیا تو کیا پاکستان کی سیاسی، مذہبی اور قوم پرست قیادت یا پھر میڈیا اور سول سوسائٹی بھی ذمہ دار نہیں کہ وہ خوف یا مصلحت کی وجہ سے ان مسائل کو سامنے نہیں لاسکے جو آج وہاں کے نوجوان غصے میں آکر سامنے لارہے ہیں ۔ یقیناََ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ نے ہی قبائلی علاقوں کو سرزمین بے آئین بنائے رکھا لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ آج اگر قبائلی علاقوں میں عدالت ہے ، آئین اور نہ قانون تو اس کے ذمہ دار میاں نوازشریف ، مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی صاحب ہیں ۔ موجودہ فوجی قیادت تو فاٹا کے ادغام کی حامی ہے اور ان سفارشات پر عمل درآمد چاہتی ہے جن کو اچکزئی صاحب اور مولانا فضل الرحمان صاحب کے پسندیدہ اور اسٹیبلشمنٹ مخالف میاں نوازشریف کی حکومت نے تیار کیا ہے بلکہ اچکزئی صاحب تو یہ الزام لگارہے ہیں کہ فاٹا انضمام کی کوششوں کے پیچھے فوج ہے ۔ اس انضمام کے حق میں تو محسود تحفظ موومومنٹ بھی سرگرم عمل تھی ، منظور پشتین بھی اس کے حامی تھے اور پی ٹی ایم کے روح رواں ڈاکٹر سید عالم محسود نے بھی اس کے لئے بڑی کوششیں کی ہیں ۔ پھر اس کی راہ میں میاں نوازشریف، مولانا فضل الرحمان اور اچکزئی صاحب کیوں رکاوٹ بنے؟ ۔ پختون تحفظ موومنٹ مطالبہ کررہی ہے اور بالکل درست مطالبہ کررہی ہے کہ فاٹا کے مسنگ پرسنز کو عدالتوں میں پیش کیا جائے لیکن سردست قانونی لحاظ سے وہ علاقے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار سے ہی باہر ہیں ۔ کل جب فاٹا تک عدالتوں کے دائرہ اختیار کو توسیع دینے کے لئے سینیٹ میں بل پاس ہورہا تھا تو پورے ایوان میں صرف جے یو آئی ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور فاٹا کے بعض سینیٹرز نے مخالفت کی ۔ گویا باقی ماندہ پورے پاکستان کے سینیٹرز قبائلی عوام کو عدالت کا آئینی حق دلوانے کی کوشش کررہے تھے اور پختون مولانا عطاء الرحمان اور پختون تحفظ موومنٹ کے اسٹیج پر پنجابیوں کو برا بھلا کہنے والے پختون سینیٹر عثمان کاکڑ اور دو قبائلی سینیٹر (اورنگزیب اور تاج محمد ) چیخ چیخ کر قبائلیوں کو اس آئینی حق سے محروم رکھنے کے جتن کررہے تھے ۔ سوال یہ ہے کہ جولوگ قبائلی عوام کو آئین اور قانون کے دائرے میں لانے کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں ، وہ پختونوں کی خدمت کررہے ہیں یا پھر پختون سرزمین کو سرزمین بے آئین بنانے والوں کی ۔
سوال یہ ہے کہ آج سے تین چار سال قبل اگر قبائلی علاقوں تک سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار پھیل چکا ہوتا ، وہاں کی تعمیر نو پر گزشتہ تین سالوں میں ہر سال ڈویژیبل فول سے تین فی صد خرچ ہوچکے ہوتے ۔ وہاں میڈیا کو رسائی مل چکی ہوتی ، وہاں کے نوجوان صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں بیٹھ کر اپنے لئے قانون سازی کے اہل ہوچکے ہوتے تو کیا آج وہاں اسی طرح گھر اجڑے ہوتے اور کیا وہاں انسانی حقوق کی یہ خلاف ورزیاں ممکن ہوتیں جس طرح کی ہوئی ہیں ۔ قبائلی علاقوں کی تعمیر نو کے لئے فنڈز تومیاں نوازشریف نے دینے تھے جو انہوں نے نہیں دئیے ؟۔ وہاں کے لئے کوئی فعال یا پھر کم ازکم قبائلی گورنر کو میاں نوازشریف نے نامزد کرنا تھا جس کی بجائے انہوں نے اقبال ظفر جھگڑا کو نامزد کیا جن کے دور میں بلوچستان کی طرح کرپشن کا بازار گرم ہوگیا اور جو بے انتہا شرافت کی وجہ سے ہر ایک کی بات پر ہاں میں سر ہلانے کے سوا کچھ بھی نہیں کرسکتے ۔ اپنی ہی بنائی ہوئی سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر دو سال تک عمل درآمد کس نے نہیں کروایا اور آج بھی وہ سفارشات سردخانے میں کیوں پڑی ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ اس ملک کی ساری قیادت قبائلی عوام اور پختون نوجوانوں کی مجرم ہے ۔ ابھی یہ دیکھ لیجئے کہ کتنی مشقتوں کے بعد قومی اسمبلی سے فاٹا تک عدالتی دائرہ اختیار کا بل پاس ہواتھا لیکن سینیٹ میں آنے کے بعد اسے لٹکا دیا گیا۔ ڈھائی ماہ یہ یہاں سردخانے میں پڑا رہا ۔ مسلم لیگ (ن) تو کیا پی ٹی آئی وغیرہ کے کسی سینیٹر نے بھی یہ نہیں پوچھا کہ اس بل کا کیا ہوا ۔ پھر سینیٹ اور چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا دھندہ گرم ہوا ۔ سیاسی جماعتوں سے مایوس ہوکر فاٹا یوتھ جرگہ ایک بار پھر متحرک ہوا ۔ وہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی ، لیڈر آ ف دی اپوزیشن شیری رحمان، جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق اور دیگر متعلقہ لوگوں سے ملا ۔ جمعرات کو سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے ملاقات کی اور حقیقت یہ ہے کہ زرداری کا وار فیصلہ کن ثابت ہوا ۔ زرداری صاحب ، چیئرمین سینیٹ ، امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور شیری رحمان صاحبہ نے بل کو سینیٹ میں لانے کی حامی بھرلی ۔ اس سلسلے میں سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے بھی قابل ستائش کردار ادا کیا ۔ گزشتہ جمعہ کےمبارک دن یہ بل سینیٹ میں رائے شماری کے لئے پیش ہوا اور چونکہ سب سیاسی جماعتیں سوائے دو کے حامی تھیں اس لئے اتفاق رائے سے منظور ہوا لیکن سیاسی جماعتوں کی غفلت ملاحظہ کیجئے کہ اگر فاٹا یوتھ جرگہ متحرک نہ ہوتا اور موجوہ سینیٹ کا اجلاس ختم ہوجاتا تو پھر وہ بل ہمیشہ کے لئے لیپس ہوجاتااور فاٹا کے لوگ مزید کئی سال عدالت ،وکیل، دلیل اور اپیل کے حق کے بغیر گزارتے ۔ افسوس کہ فاٹا اور پختونوں کے مامے چاچے تو بہت ہیں لیکن متعلقہ فورمز پر ان کی ترجیحات کا یہ عالم ہے چنانچہ نتیجہ پھر پختون نوجوانوں کا اس غصے کی صورت میں نکلتا ہے ۔
ابھی یہ ظلم دیکھ لیجئے کہ سرتاج عزیز کمیٹی کو گلگت بلتستان سے متعلق اصلاحات کا بھی ٹاسک دیا گیا ہے ۔ وہ رپورٹ تیار پڑی ہے لیکن نہ نوازشریف کو اس کی فکر ہے اور نہ عمران خان نے کبھی اس کا نام لیا ہے ۔ کل جب خدانخواستہ گلگت بلتستان میں بھی فاٹا جیسا طوفان کھڑا ہوگا تو سب کے چاروں طبق روشن ہوجائیں گے ۔حالانکہ آج گلگت بلتستان کے لوگ بھی اسی طرح محرومیوں کاشکار ہیں جس طرح فاٹا کے لوگ ہیں۔