میاں نواز شریف کے تازہ بیان نے پاکستانی سیاست میں “خلائی مخلوق” کی نئی اصطلاح متعارف کروا دی ہے۔
میاں صاحب کے یوں تو بہت سے مخالفین ہیں، اب انہوں نے اپنے مخالفین کی فہرست میں خلائی مخلوق کو بھی شامل کر لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا اصل مقابلہ نادیدہ طاقتوں یا خلائی مخلوق سے ہے جو بظاہر نظر نہیں آتیں مگر اپنا بھرپور وجود رکھتی ہیں۔
ان کا یہ بیان سن کر یونہی ذہن میں ایک سوال اٹھ گیا ہے کہ جب حکمران اقتدار پر ہوتے ہیں تو وہ عوام کے لیے انہیں خلائی مخلوقوں کی طرح نادیدہ کیوں ہو جاتے ہیں؟
وزیراعظم صاحب اپنی پارلیمنٹ کے لیے بھی خلائی مخلوق کا روپ دھار لیتے ہیں۔ پانچ سالہ حکومت میں وہ کتنی بار پارلیمان میں تشریف لائے، انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔
اس ملک کے 22 کروڑ عوام کا بھی ہر جگہ خلائی مخلوق سے واسطہ پڑتا ہے۔ جس طرح ووٹر کو الیکشن کے بعد عوامی نمائندے نہیں ملتے اسی طرح سرکاری دفاتر میں افسر نہیں ملتے۔ تھاںہ کچہری میں انصاف نہیں ملتا۔ پولیس کو سامنے کھڑا مجرم نہیں ملتا۔ غریب کو روٹی نہیں ملتی اور بیروزگار کو ملازمت نہیں ملتی۔ غرض کہ ہر شعبہ زندگی میں خلائی مخلوق اپنا وجود رکھتی ہے لیکن ہماری آنکھیں انہیں دیکھنے سے قاصر ہیں۔ اسی طرح ان کے معاملات چلتے رہتے ہیں اور معاشرے پر انکے نادیدہ پنجے گڑے رہتے ہیں۔
میاں صاحب کی احتجاجی آواز قابلِ قدر اور آئین پاکستان کی حکمرانی کی طرف بڑا قدم ہے مگر رات کے اندھیرے میں خلائی مخلوق سے ملاقاتیں کی جائیں، دو بار بی بی شہید کی حکومت درمیان میں ختم کی جائے، لانگ مارچ کیے جائیں اور معاہدے کر کے اڈیالہ سے جدہ تک اس طرح عازمِ سفر ہوجائیں ہے ساتھ والی بیرک کے غوث علیشاہ کو بھی کانوں کان خبر نہ ہو، یہ سب بھی تو نادیدہ قوتوں کے ساتھ تعلقات کا ثمر ہے۔
جو نظر آتا ہے، ڈر خوف اس سے بھی ہوتا ہے مگر نادیدہ دشمن کا کوئی چہرہ نہیں ہوتا۔ اس کے وار اور سمت کی سمجھ نہیں آتی۔ اس کی موجودگی کا احساس ہی انسان کے اعصاب بوکھلا دیتا ہے۔ یہ بوکھلاہٹ ہی انسان کو ان نادیدہ قوتوں کا تر نوالہ بنا دیتا ہے۔
میاں صاحب، جو نظر نہیں آتے ان سے کیا شکوہ، جو سامنے ہیں انکا مقابلہ کیوں نہیں۔