اسلام آباد(ویب ڈیسک ) جعلی اکاؤنٹس کیس میں دو خواتین ملزمان کے بعد اور ایک ملزم نے وعدہ معاف گواہ بننے کی درخواست دے دی جب کہ عدالت نے سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی عبوری ضمانت میں 9 مئی تک توسیع کردی۔احتساب عدالت نمبر 2 کے جج ارشد ملک نے جعلی اکاؤنٹس کیس کی سماعت کی تو اس موقع پر سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور عدالت میں پیش ہوئے۔کیس کی سماعت شروع ہوئی تو ملزم شیر محمد نے وعدہ معاف گواہ بننے کی درخواست دی جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم کی درخواست موصول ہو چکی ہے جس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔جعلی اکاؤنٹس کیس میں اہم پیشرفت، 2 ملزم خواتین کی گواہی دینے کی درخواست اس سے قبل کرن اور نورین نامی 2 ملزم خواتین نے عدالت سے گواہ بننے کی درخواست کی تھی جس پر عدالت نے انہیں الگ الگ تحریری درخواستیں جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ پیپر بُکس کی ایک ایک کاپی تیار کی ہے، عدالت ریکارڈ کا جائزہ لے۔کیس سے منسلک کراچی جیل میں قید 4 ملزمان کو پیش نہیں کیا جا سکا جن سے متعلق فاضل جج نے استفسار کیا کہ ملزمان کی پیشی کیلئے چیف سیکرٹری سندھ کو نوٹس کیا تھا، اس کا کیا بنا؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا چیف سیکرٹری سندھ کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا۔عدالت نے ملزمان کی طلبی کے لیے چیف سیکرٹری سندھ کو دوبارہ نوٹس جاری کردیا۔عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی عبوری ضمانت میں 9 مئی تک توسیع کرتے ہوئے انہیں 20 ،20 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی۔عدالت نے کیس میں نامزد عبدالغنی مجید، انور مجید اور حسین لوائی کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کا بھی حکم دیا۔ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کا پسِ منظرمنی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اُس وقت اٹھایا گیا، جب مرکزی بینک کی جانب سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔ ایف آئی اے نے ایک اکاؤنٹ سے مشکوک منتقلی کا مقدمہ درج کیا جس کے بعد کئی جعلی اکاؤنٹس سامنے آئے جن سے مشکوک منتقلیاں کی گئیں۔معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا تو اعلیٰ عدالت نے اس کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی) تشکیل دی جس نے گزشتہ برس 24 دسمبر کو عدالت عظمیٰ میں اپنی رپورٹ جمع کرائی جس میں 172 افراد کے نام سامنے آئے۔جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری اور اومنی گروپ کو جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے فوائد حاصل کرنے کا ذمہ دار قرار دیا اور ان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی۔اس کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے بھی تفتیش کی گئی جب کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی تحریری طور پر جے آئی ٹی کو اپنا جواب بھیجا جب کہ اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید اور نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی ایف آئی اے کی حراست میں ہیں۔سپریم کورٹ نے 7 جنوری 2019 کو اپنے فیصلے میں نیب کو حکم دیا کہ وہ جعلی اکاؤنٹس کی از سر نو تفتیش کرے اور 2 ماہ میں مکمل رپورٹ پیش کرے جب کہ عدالت نے جے آئی ٹی رپورٹ بھی نیب کو بجھجوانے کا حکم دیا۔اعلیٰ عدالت نے حکم دیا کہ تفتیش کے بعد اگر کوئی کیس بنتا ہے تو بنایا جائے۔نیب نے 7 جنوری کو ہی جعلی اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات کے لیے کمبائنڈ انویسٹی گیشن ٹیم (سی آئی ٹی) تشکیل دی جس کی سربراہی ڈی جی نیب راولپنڈی کو دی گئی۔آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے 20 مارچ کو نیب کی کمائنڈ انویسٹی گیشن کے سامنے پیش ہو کر بیان ریکارڈ کرایا۔نیب راولپنڈی نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں تین ریفرنسز تیار کر کے نیب ہیڈ کوارٹر بھجوائے اور چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی زیر صدارت نیب ایگزیکٹو بورڈ نے 2 اپریل کو جعلی اکاؤنٹس کیس میں پہلا ریفرنس اومنی گروپ کے چیف ایگزیکٹو عبدالغنی مجید اور دیگر کے خلاف دائر کرنے کی منظوری دی۔