نواز شریف نے اپنی بیٹی مریم نواز کی تعریف کی ہے۔ یہ اچھی بات ہے اور بڑے حوصلہ کی بات ہے۔ ورنہ ہمارے ہاں لوگ اپنی بیٹیوں کی تعریف نہیں کرتے۔ مریم بیٹی بھی ہیں اور ماں بھی ہیں۔ ایک شادی شدہ بیٹی کی ماں ہیں۔ نانی بننے والی ہوں گی۔ خاندان میں حسن نواز اور حسین نواز بھی ہیں مگر ذکر مریم نواز کا ہوتا ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے۔ مریم ایسا نام ہے جو پسندیدہ ہے وہ کئی تقریبات میں اپنے وزیراعظم والد کے ساتھ ہوتی ہیں۔ وہ وزیر نہیں ہیں مگر بہت وزیروں سے آگے ہیں۔ کئی معاملات میں نواز شریف ان سے مشورہ کرتے ہیں۔ نواز شریف ان سے مشورہ کیا کریں۔ وہ بہتر صورتحال کی طرف انہیں مائل کریں گی۔ سنا ہے کہ مریم نواز اب نواز شریف کی جانشین ہیں۔ زرداری صاحب اور بلاول بھٹو زرداری اسمبلی میں آ رہے ہیں تو میری خواہش ہے کہ مریم نواز بھی اسمبلی میں آئیں۔ اس طرح اسمبلی میں خوب رونق رہے گی۔ مریم اورنگزیب مریم نواز کی سہیلی ہیں اور میرا خیال ہے کہ انہیں مریم نواز کی رکمنڈیشن پر وزیر بنایا گیا ہے۔ ان کی کارکردگی اچھی ہے۔
……٭……
برادرم شیخ رشید نے کہا ہے کہ نعیم بخاری کو قانون کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ وہ خواہ مخواہ دلائل کو طول دے رہے ہیں۔ دوسری طرف نعیم بخاری نے اعلان کر دیا ہے کہ وکیل تو ہارتا ہی نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے وکیل دونوں طرف سے نہیں ہارتے۔ ہارتا صرف مدعی ہے یا مدعا علیہ ہے۔ وکیل مدعی علیہ کو کچھ نہیں سمجھتا وہ صرف کیس پر دھیان دیتا ہے اور اس کی نظر اپنی فیس پر ہوتی ہے۔
……٭……
معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ نعیم بخاری ہنسوڑ قسم کا آدمی ہے۔ وہ بات کرنے سے پہلے ہنس پڑتا ہے اور بات ختم ہونے تک ہنستا رہتا ہے۔ اس نے ہنسی ہنسی میں بہت کچھ حاصل کیا ہے مگر اس ہنسی ہنسی میں طاہرہ سید جیسی سوبر، باوقار اور شائستہ عورت کو ضائع کر دیا ہے۔ وہ ایک منفرد معزز اور بڑی گلوکارہ ہیں۔ وہ یقیناً نعیم بخاری سے بڑی عورت ہیں۔ اس کے غیرسنجیدہ رویے کی وجہ ہے طاہرہ سید نے ہی اسے چھوڑ دیا ہے۔ اس کا زیادہ دکھ بہت بڑے دانشور اور ممتاز وکیل ایس ایم ظفر کو ہے۔
……٭……
سابق چیف جسٹس سعیدالزمان صدیقی گورنر سندھ کی حیثیت سے فوت ہو گئے ہیں۔ وہ ہسپتال میں فوت ہوئے۔ ان کا جنازہ گورنر ہائوس میں پڑھایا گیا۔ مجھے ان کے انتقال پر افسوس ہوا ہے۔ مجھے ان کے اس طرح انتقال پر زیادہ افسوس ہوا ہے کہ جب سے وہ گورنر سندھ ہوئے تھے وہ مسلسل بیمار چلے آ رہے تھے۔ وہ ایک دن بھی صحت مند گورنر سندھ کی حیثیت سے نہ گزار سکے۔
وہ عمر رسیدہ تھے۔ پوری طرح صحت مند بھی نہ تھے تو گورنر بننے کی کیا ضرورت تھی۔ انہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے بڑے بڑے مشکل حالات میں جرات مندانہ فیصلے دیے۔ ان کی بڑی عزت تھی۔ انہیں گورنر بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ کسی کو نوازنے سے پہلے نواز شریف کو سوچنا چاہیے۔ وہ یقیناً کسی وجہ سے صدیقی صاحب کے احسان مند ہوں گے اور نواز شریف احسان کو بھلانے والے نہیں ہیں۔ وہ جونہی برسراقتدار آئے ہیں تو ہر کسی کا احسان چکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر کبھی کسی ایسے معاملے میں لینے کے دینے بھی پڑ جاتے ہیں۔
جب اپنے صدارتی امیدوار کے ہارنے کا یقین تھا تو جسٹس صدیقی صاحب کو امیدوار بنا دیا اور جب اپنے صدارتی امیدوار کے جیتنے کا یقین تھا تو ممنون حسین کو امیدوار بنا دیا۔ اس صورتحال کے حوالے سے ہم سوچ رہے ہیں مگر دوستی میں جسٹس صدیقی صاحب نے نہ سوچا۔ حتیٰ کہ انہوں نے گورنر سندھ بننا بھی قبول کر لیا۔ یہ دھڑے بندی میں استقامت کی بات تھی۔ ورنہ انہوں نے پی سی او کے تحت چیف جسٹس پاکستان کے لئے حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ خدا کی قسم ایک بے اختیار اور صرف نام کے گورنر سے سابق چیف جسٹس ہونا بھی زیادہ اہم اور بڑا ’’منصب‘‘ ہے۔ نجانے پارلیمانی نظام میں اس طرح کے غیر ضروری منصب کیوں ہیں۔ اب ان کے انتقال پر سابق گورنر پہلے اور سابق چیف جسٹس بعد میں ان کے نام کے ساتھ آتا ہے۔
……٭……
سٹیزن کونسل آف پاکستان کی جانب سے لاہور پریس کلب کے عہدیداران اور ارکان مجلس عاملہ کے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب تھی۔ مجھے اس شاندار تقریب میں ایک معروف خاتون ثروت روبینہ نے بلایا تھا۔ وہ کونسل کے خواتین ونگ کی صدر ہیں۔ صدر کونسل رانا امیر احمد خان ہیں انہوں نے اجلاس سے خطاب کیا۔ صدر پریس کلب شہباز میاں نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح بار کونسلیں ایکٹو ہیں پریس کلب کو بھی ایکٹو ہونا چاہیے۔ رانا صاحب کا بھی خیال ہے کہ ہم نیشنل ایشوز پر مذاکرات کرتے ہیں اور اپنی سفارشات متعلقہ اداروں کو بھجواتے ہیں۔ شہباز میاں نے کہا کہ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے ہم پریس کلب کے فورم پر بھی سیمینار کرائیں گے۔ رانا صاحب نے بتایا کہ ہماری سٹیزن کونسل آف پاکستان ایک تھنک ٹینک کی شکل اختیار کرتی جاتی ہے۔ ہم مختلف قومی موضوعات پر مذاکرات کراتے ہیں۔ یہاں میرے پرانے دوست زاہد گوگی بھی موجود تھے۔
ثروت روبینہ واحد خاتون اس اہم ترین اجلاس میں موجود تھیں وہ تحریک انصاف میں ہیں وہ سماجی خاتون کارکن بھی ہیں۔ بہت سوبر مگر ایکٹو ہیں۔ رانا صاحب نے بتایا کہ ان کی کونسل میں الطاف قمر سابق ایڈیشنل آئی جی پولیس جنرل راحت لطیف ،قیوم نظامی اور فی البدیہہ شاعر ظفر علی راجا بھی ہیں۔ کونسل کے اجلاس سے جسٹس اللہ نواز نے بھی خطاب کیا۔ اجلاس کے بعد رانا امیر احمد خان اور ثروت روبینہ اور کچھ دوسرے دوست ہمارے ساتھ موجود رہے۔ حالات حاضرہ پر گفتگو ہوئی۔