counter easy hit

جو زندگی بھر ترستے ہیں زندگی کے لئے

تھیلسمیا خون کا ایک ایسا مورثی مرض ہے جس کا شکار افراد کی ساری زندگی اس مرض کا مقابلہ کرتے اور زندگی بھر زندگی کے لئے ترستے ہوئے گزر جاتی ہے۔ تھیلسمیا جو کہ خون کی کمی کی بیماری ہے اس کی دواقسام ہیں تھیلسمیا مائینر اور تھیلسمیا میجر۔ تھیلسمیا مائینرمیں خون کے سرخ سیل کچھ کم ہوتے ہیں لیکن تھیلسمیا میجرمیں یہ انتہائی کم ہوتے ہیں اور اور مستقل کم ہوتے جاتے ہیں، جس پر تھیلسمیا میجر کے مریضوں کو تقریباً ہر ماہ خون لگوانا پڑتا ہے، اور خون لگنے پر ہی ان کی زندگی کا انحصار ہوتاہے ۔ خون کے سرخ خلیات میں ہیموگلوبن نامی پروٹین ہوتا ہے جس میں آئرن پگمنٹ ہوتا ہے جو آکسیجن جذب کرتے ہوئے آکسی ہیمو گلوبن بن جاتا ہے اور جسم کے ہر حصے تک، ہر ٹشو تک آکسیجن اور توانائی پہنچاتا ہے۔ کسی مخصوص وجہ سے اگر جسمانی نظام ہیمو گلوبن بنانے سے قاصر ہوتو یہ عارضہ لاحق ہوتا ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق اگر ماں اور باپ دونوں تھیلسمیا مائینر ہیں تو بچوں میں تھیلسمیا میجرکے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ تھیلسمیا کا مرض ایک مخصوص جین  کے ذریعے بچے میں منتقل ہوتا ہے، جین جوڑے میں ہوتے ہیں جو ایک ماں سے ایک آتا ہے اور ایک باپ سے۔ اگر دونوں میں ناقص جین ہوں تو بذات خود تو وہ عام اور نارمل زندگی گزارتے ہیں لیکن حد درجہ ممکن ہے کہ بچہ اس عارضہ سے متاثر ہو جائے، اس طرح تھیلیسمیاکی بیماری والدین سے بچوں میں منتقل ہو جاتی ہے۔
متاثرہ بچہ پیدائش کے وقت بظاہر نارمل ہوتا ہے لیکن چھ ماہ تا دو برس کی عمر میں ڈاکٹر مرض کی شناخت کرسکتے ہیں۔ اس مرض میں مبتلابچوں کی تکلیف، اور ان کے والدین کی اذیت کو ہم سمجھ ہی نہیں سکتے۔ یہ بچے حسب معمول زندگی نہیں گزارسکتے، نہ تو اچھی طرح پڑھ پاتے ہیں اور نہ ہی دوستوں کے ساتھ کھیل سکتے ہیں، کیونکہ خون کی کمی سے ان کا دماغ وقتاً فوقتاً تھوڑا سا سست ہوجاتا ہے ، اور ہر تین تا چار ہفتوں میں انہیں خون لگوانے کے مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے، اس دوران سکول سے ناغہ کرنا پڑتا ہے، اور انہیں کئی دوسرے عارضوں میں مبتلا ہونے کا اندیشہ لاحق رہتا ہے۔ اس طرح زندگی نہ صرف ان کے لئے بلکہ ان کے اپنوں کیلئے بھی بوجھ بن جاتی ہے۔ اس موذی مرض کے شکار ایک بچے کے علاج کا ماہانہ خرچ تقریباً دس ہزارروپے سے زائد ہوتا ہے جو غریب والدین کے علاوہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے بھی انتہائی مشکل اور ناقابل برداشت ہوتاہے ۔ جبکہ اس بیماری کا مفت علاج کرنے والے سماجی ادارے بھی فنڈز کی کمی کا شکار رہتے ہیں جس کے باعث اکثرغریب بچوں کو مکمل علاج کی سہولت میسر نہیں ہوپاتی اور ان بچوں کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں، لیکن تھیلسمیا میں مبتلا بچے ہرلمحہ زندگی کے لئے ترستے ہیں اور ہماری توجہ کے طالب رہتے ہیں ہمیں ان ننھے پھولوں کو مایوس نہیں کرناچاہیے، ان کے نازک سے بازو¿ں میں سوئیاں پیوست ہوتی ہیں اور ان کے نادار والدین در در دھکے کھانے پر مجبور ہوتے ہیں کہ کسی طرح ان کی اولاد کی زندگی بچ جائے ، اس طرح یہ دردمند افراد ہماری مدد کے منتظر رہتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں تھلیسمیاکے مریض 25 لاکھ سے متجاوز ہیں جبکہ سالانہ 6 ہزار بچے اس موذی مرض کا شکار ہو رہے ہیں، جبکہ ملک بھر میں رجسٹر مریضوں کی تعداد صر ف 1 لاکھ 25 ہزار ہے۔ سرکاری سطح پر اس مرض کے حوالے سے قابل عمل اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کو خون کی ترسیل میں ہر مہینے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انسانیت کا تقاضا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو ان کی تکلیف محسوس کرنی چاہیے ، ہمیں خون کے عطیات دے کر ان کی زندگی بچانی چاہیے۔ طبی ماہرین کا کہناہے کہ ہر تندرست انسان کو سال میںکم از کم دو بار خون کا عطیہ د ینا چاہئے اس سے صحت پر کسی قسم کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے ، بلکہ خون کا عطیہ دینے والے افراد صحت مند رہتے ہیں ۔ دنیا کے دیگر ممالک میں خون کا عطیہ دینے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن افسوس کہ ہمارے ملک میں صرف تقریبا 4 سے 5 فیصد ایسے افراد ہیں جوکہ رضاکارانہ طور پر خون کا عطیہ دیتے ہیں جبکہ دیگر افراد حادثات یا دیگر سنگین صورتوں میں خون عطیہ کرتے ہیں۔ جبکہ ہر وہ شخص جس کی عمر 18 سے 50 سال اور وزن تقریبا 50 کلو سے زائد ہو وہ خون کا عطیہ دے سکتاہے۔ خون کے عطیہ کے علاوہ مالی تعاون سے ان بچوں کو ادویات اورخون کی فراہمی  ممکن ہوسکتی۔ ہمیں مشکلات اور مالی مسائل کا شکاران افراد کی خصوصی مدد اور معاونت کرنا چاہئے کیونکہ تھیلسمیا کے مرض میں مہنگے علاج سے جسم میں آئرن کی مقدار کو نارمل سطح پر لا نا ہوتا ہے، ہرماہ نیا خون لگوانا ہوتا ہے، اس کے علاوہ باقاعدگی سے میڈیکل ٹسٹ کروانا ہوتے ہیں۔ اس طرح متاثرہ بچے اور اس کے گھروالے عام طرز زندگی گزارنے سے محروم رہتے ہیں، ہمیں ان کا دکھ بانٹنا چاہئے۔ اور مستقبل میں اس مرض سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ شادی سے قبل لڑکا اور لڑکی کے خون کے ٹسٹ کروالئے جائیں، اور اگر شادی خون کے رشتہ دار سے ہورہی ہے تو خون کا مخصوص ٹسٹ بہت ہی ضروری ہے کیونکہ یہ ٹسٹ تھیلسمیا کی موجودگی کی تصدیق کرسکتا ہے۔ بلاشبہ کسی بھی بیماری کی روک تھام کے لئے حفاظتی اقدامات ، اذیتناک صورتحال اور مشکل ترین علاج سے کہیں بہتر ہے۔

تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website