اسلام آباد(ویب ڈیسک) دفاعی تجزیہ نگار امجد شعیب سے سوال کیا گیا کہ کیا آصف غفور کو سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال پر تبادلہ کیا گیا۔جس کا جواب دیتے ہوئے امجد شعیب نے بتایا کہ ایسی کوئی وجہ نہیں،ایک جگہ پر آپ کا دو سال کا دور ہوتا ہے۔اور کوشش ہوتی ہے کہ ایک آدمی نے اگر میجر جنرل
ائیرلائن نے خاتون کا زبردستی ایسا ٹیسٹ لے لیا کہ جان کر خواتین بھی فضائی سفر کرنے سے کترائیں گی
کے عہدے پر چار پانچ سال رہنا ہے تو اس کو ایک سروس کا تجربہ دیا جاتا ہے تاکہ وہ آگے پروموشن کے لیے آگے جا سکے۔امجد شعیب نے مزید کہا کہ فوج کا ترجمان ہونا اور کمانڈ سنبھالنا دو الگ الگ کام ہیں۔بطور ڈی جی آئی ایس پی آر ان کی مدت ملازمت ختم ہو چکی تھی اس لیے انہیں رخصت کیا گیا۔انہوں نے بطور ڈی جی آئی ایس پی آر بہت اچھا کام کام کیا۔ لیکن اس تجربے کی بنیاد پر وہ آگے کور کی کمانڈ نہیں کر سکتے اس لیے آصف غفور کو واپس فیلڈ میں جانا چاہئیے تھا۔امجد شعیب نے مزید کہا کہ آصف غفور کا بطور ڈی جی آئی ایس پی آر ریکارڈ بہت اچھا ہے،ٹویٹس کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔واضح رہے دفاعی تجزیہ نگار امجد شعیب سے سوال کیا گیا کہ کیا آصف غفور کو سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال پر تبادلہ کیا گیا۔جس کا جواب دیتے ہوئے امجد شعیب نے بتایا کہ ایسی کوئی وجہ نہیں،ایک جگہ پر آپ کا دو سال کا دور ہوتا ہے۔اصولاََ آرمی کے خلاف جو بھی ٹویٹ لکھتا ہے اس کا کسی نہ کسی لیول میں جواب دینا چاہئیے۔انہوں نے کچھ اکاؤنٹس بنائے ہوئے تھے جہاں سے جواب جاتے تھے۔لیکن ٹویٹر نے ان میں سے کئی اکاؤنٹ بند کر دئیے۔کچھ لوگ ٹویٹر پر ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے پاک فوج کے خلاف غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے اور ایک ڈی جی آئی ایس پی آر ان کا کام تھا کہ وہ آرمی کا امیج برقرار رکھتے۔آرمی کے اوپر لگنے والے بہتان کا جواب دیں۔ٹویٹر پر وہ جو کچھ لکھ رہے تھے وہ جی ایچ کیو کی پالیسی کے مطابق لکھ رہے تھے۔خود بخود تو یہ چیزیں نہیں کی جا سکتیں۔