مولود مرت التنتاش نے ترکی میں تعینات روس کے سفیر آندرے کرلوف کو ہلاک کرنے کے بعد چند سیکنڈز کے لیے ٹوٹی پھوٹی عربی میں کچھ جملوں بلند آواز میں کہے۔
انھوں نے ‘اللہ اکبر’ کا نعرہ بھی لگایا۔
پھر ترک زبان میں کہا: ‘شام کو مت بھولو، حلب کو مت بھولو۔ وہ تمام جو اس ظلم میں ملوث ہیں ان کا احتساب ہوگا۔’
انقرہ کا بلوہ پولیس اہلکار
اس کی شناخت وزیرداخلہ سلیمان سوئیلو نے 22 سالہ پولیس اہلکار کے طور پر کی۔ ان کا کہنا تھا کہ التنتاش کی پیدائش 24 جون 1994 کو سوکے قصبے میں ہوئی، جو مغربی ترکی کے صوبہ آیدین میں واقع ہے، اور اس نے شمالی شہر ازمیر میں واقع پولیس کالج سے تربیت حاصل کی تھی۔
وہ ڈھائی سال سے انقرہ کی بلوہ پولیس میں کام کر رہا تھا اور حملے کے وقت بظاہر چھٹیوں پر تھا۔
تفتیش کا اس پہلو کا جائزہ لے رہے ہیں اس کا یہ عمل مغربی حلب میں تباہی کا ردعمل تھا یا وہ روس کے ساتھ تعلقات کو خراب کرنے کے کسی بڑے منصوبے کا حصہ تھا۔
غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق وہ نومبر میں ترکی میں ناکام بغاوت میں ملوث ہونے کے باعث کئی ہفتے ملازمت سے برطرف رہا تھا۔ حکومت نواز میڈیا میں ایک ایسی دستاویز دکھائی جا رہی ہے جس میں بغاوت کے فورا بعد وہ تین دن کے لیے رخصت پر چلا گیا تھا۔
التنتاش نے پیر کو حملے سے پہلے قریب ہی واقع ایک ہوٹل میں قیام کیا تھا جہاں اس نے شیو کی اور ٹائی سوٹ پہنا۔
نمائش میں وہ اپنا سرکاری پولیس کا شناختی کارڈ دکھا کر داخل ہوا تھا۔
مقامی وقت کے مطابق سات بج کر پانچ منٹ پر حملے سے قبل اسے سفارتکار کے پیچھے کھڑا دیکھا جا سکتا تھا۔ اس نے 11 گولیاں چلائی، نو سفارتکار پر اور دو ہوا میں۔
سفارتکار پر گولیاں چلانے کے بعد اس نے ہتھیار نہیں پھینکے اور 15 منٹ تک پولیس اور اس کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے نتیجے میں اسے ہلاک کر دیا گیا۔
اس کے فورا بعد اس کے آبائی شہر سوکے میں اس کے والد، والدہ اور بہن کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لے لیا گیا۔
انقرہ کے میئر ملیح گوکچک کا کہنا تھا کہ التنتاش کا تعلق مبلغ فتح اللہ گولن سے ہوسکتا ہے تاہم گولن تحریک نے اس حملے کی مذمت کی اور حملہ آور کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلق کی تردید کی۔