برمنگھم(ویب ڈیسک) وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو کر کٹ کے زمانے میں اپنی مردم شناسی کے دعوے کے طور پر وسیم اکرم کو اپنی ٹیم میں جگہ دی یہ ان کے بقول کنکریوں سے ہیرا نکالنے کا عمل تھا۔ وسیم اکرم دنیا کے عظیم آل رائونڈر ثابت ہوئے۔ پنجاب کا وزیر اعلیٰ چننے کے انتخاب میںنامور صحافی سید محمد علی عابد اپنے ایک تجزیے میں لکھتے ہیں۔۔۔عثمان بزدار کو منتخب کیا اور یہ دوسرا وسیم اکرم ہوگا پنجاب کے آج تک جتنے وزیر اعلیٰ ہو کر گزرے ہیں یہ ان سب سے بہتر ہو گا۔ یہ بھی کہا کہ بزدار کا بیک گرائونڈ نہایت معمولی اور سادہ ہے۔ یہاں تک کہ ان کے گھر میں بجلی کا کنکشن بھی نہیں ہمیں اس بیان کے درست ہونے پر شک تھا عمران خان صاحب نے یہ بائیو ڈیٹا کہاں سے لیا یہ وہی جانتے ہیں۔ تیرہ ماہ کی کارکردگی کسی منظم اور کامیاب حکمران کی سنی نہیں، بزدار کے دادا کو انگریز نے میاں چنوں میں دس مر لے (250ا یکڑ) زمین دی تھی جو بزدار خاندان کے وڈیرے زمینداروں کی صف میں جگہ دینے کے لئے کافی ہے یہ معمولی بیگ گرائونڈ نہیں۔ میاں چنوں کے علاوہ ان کے خاندان کی زرعی زمیں ڈیرہ غازی خان کے پہاڑی علاقے میں بھی ہے۔ عثمان بزدار اقرابا پرور بھی ہیں یہ کوئی بڑی بات نہیں آپ اپنے عزیزوں اور دوستوں کو کلیدی اسامیوں پر مامور کریں کیونکہ شروع میں آپ کو ان لو گوں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے جن پرآپ بھروسہ کرسکیں لیکن یہ تھوڑے عرصے کے بعد اپنے سٹاف کے اہل اور ایماندار کارکنوں کو آگے لانا ضروری ہوتا ہے بزدار نے اپنے بھائی کو ایک تعریفی خط دیا ہوا ہے جس میں لکھا ہے کہ یہ میرا قریبی عزیز ہے اس کی مدد کی جائے موصوف نے اس خط کی لیمنیشن کروائی ہوئی ہے تا کہ کثرت استعمال سے یہ پھٹنہ جائے۔ اپنے دوسرے بھائی کو جو بارڈر پولیس میں تھے رسالدار بنا دیا۔ لوگ اس فیصلے کے خلا ف عدالت چلے گئے جس نے اسے کالعدم قرار دے دیا اور انہیں رسالدار سے دوبارہ جمعدار بنا دیا۔ اپنے پھوپھا کو جو پولیس میں اٹھارویں گریڈ تک ترقی پاچکے تھے انہیں اپنا مشیر مقرر کر لیا۔ ڈیرہ غازیخان کے معاملات اپنے بہنوئی کے حوالے کئے ہوئے ہیں ان کے ایک دوست فرنٹ مین کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
ڈیرہ غازیخان میں ان کے نام پر کرپشن ہو رہی ہے لیکن بزدار اس سے لاعلمی ظاہر کرتے ہیں ان کا اپنا فرمان ہے کہ میں تو ابھی سیکھ رہا ہوں۔ ساہیوال میں پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کے وارث لاہور وزیر اعلیٰ سے ملاقات کےلئے آئے اور تمام دن شہباز گل کے دفتر میں بیٹھے رہے اور شام کو ان لوگوں سے ملاقات کئے بغیر گھر واپس آگئے۔ شہباز گل وزیر اعلیٰ کے گھر پہنچے اور عرض کی کہ وہ لو گ دفتر میں انتظار کر رہے ہیں دو منٹ کے لئے ان سے ملاقات کر لیں۔ وزیر اعلیٰ نے فرمایا کہ آج موڈ نہیں پھر کسی دن ان کے گھر جا کر مل لیں گے۔ مسلم لیگ ن اور ق کا مطالبہ ہے کہ اگر عمران خان امریکہ سے واپسی کے بعد ایک ہفتے کے اندر اندر عثمان بزدار کو تبدیل نہیں کرتے تو پی ٹی آئی کو صوبے کی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ وقت بتائے گا کہ عمران خان کی خود اعتمادی کام آتی ہے کہ مسلم لیگ ن اور ق کااتحاد صوبے کی حکومت تبدیل کر سکتا ہے اگر انہیں صوبے میں کامیابی حاصل ہو جاتی ہے تو اگلا مرحلہ مرکزی حکومت کی تبدیلی کا ہوگا جسے نادیدہ قوتوں کے سوا کوئی نہیں بچا سکتا۔ اگر ان ہائوس تبدیلی آتی ہے تو یہ جمہوریت کی جیت ہوگی۔ کسی الیکشن کی ضرورت نہیں ہوگی نہ ہی دھرنوں اور احتجاج کی نوبت آئے گی۔ اس سے پہلے زرداری کی حکومت میں بھی ایسی ہی تبدیلی آئی تھی۔ پی پی پی نے مسلم لیگ ن کے علیحدہ ہونے پر دوسری جماعتوں سے مل کر حکومت بنا لی تھی جو اپنی انتخابی مدت ختم ہونے تک قائم رہی بیرونی ممالک جرمنی اور فرانس میں اس قسم کے اتحاد بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں حکومت کا کام جاری رہتا ہے۔ عوام مہنگائی بے روزگاری اور بد حکومتی سے تنگ ہیں اور موجودہ نا اہل اور نا تجربے کار حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں نئے اتحاد سے وجود میں آنے والی تجربہ کار اور اہل حکومت بننے کو خدا کی مہربانی تصور کریں گے اور سُکھ کا سانس لیں گے۔
موجودہ حکومت کو پاور میں لانے والی نادیدہ قوتوں کو احساس ہو جائے گا کہ ان کے لگائے ہوئے پودے اب سرسبز نہیں ہوتے عوام بیدار ہو چکی ہے۔ ہماری قوم 35 سال تک آمرانہ حکومتیں بھگت چکی ہے اب پس پردہ رہ کر چند لوگ پروکسی کے ذریعے ہونے والی حکمرانی برداشت نہیں کریں گے۔ ہماری فوج بھی سمجھ چکی ہے کہ حکومت کرنا عوامی نمائندوں کا کام ہے، فوج کا مقدس فریضہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت ہے، بھارتکے وزیر اعظم مودی کی موجودگی نے اس کے تقدس میں اضافہ کر دیا ہے ہماری افواج دنیا بھر میں ثانی نہیں رکھتی۔ حالیہ دنوں میں جس بہادری اور دلیری سے طالبان کا خاتمہ کیا ہے وہ امریکہ کی فوج افغانستان میں نہیں کر سکی۔ ہمارے فوجی افسر اور جوان اسلام کے اس فلسفے پر کہ مر گئے تو شہید زندہ رہے تو غازی، چت بھی ہماری اور پٹ بھی ہماری، میجر عزیز بھٹی، میجر طفیل، میجر شریف جیسے نشان حیدر پانے والے پیدا کئے ہیں اور ہماری ائر فورس، نیوی دنیا کی بہترین فورسز رہی ہیں ۔1965 ء کی جنگ میں انہوں نے مارکہ دوارکا میں بھارتی نیوی کے اس غرور کو کہ وہ بحر ہند کی غالب فورس ہے بھانڈا پھوڑ دیا تھا۔ اس وقت سے اب تک یہ کسی معاملے میں دخل اندازی کئے بغیر روزانہ اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے کی مشق کر تی رہتی ہیں جس کی وجہ سے ان کا مقام بلند ہوتا رہتا ہے۔ اب ہماری فوج بھی انہیں خطوط پر چل کر اپنے احترام اور صلاحیتوں میں اضافہ کرتی رہے گی۔ انشا اللہ جمہوری حکومت عوام کو جوابدہ ہوتی ہے وہ عوام کے ساتھ مل کرافہام و تفہیم کے نظام کے تحت حکمرانی چلاتی ہے جبکہ آمرانی حکومت نظام کو سیاہ و سفید میں تقسیم کر کے عوام کو سیاہ اور خود کو سفیدکا درجہ دے دیتی ہے۔ قوم 35 سال اس عذاب سے گزر چکی ہے ہر محب وطن پا کستانی کو یہ تجربہ دہرائے جانے کے عذاب سے امان میں رہنے کی دعا کرنی چاہئے ایسا نہ ہو کہ کوئی سر پھرا طالع آزما آمریت نا فذ کر نے کی کو شش کرے۔