اسلام آباد: معروف صحافی و تجزیہ کار صابر شاکر نے کہا کہ اسد عمر ٹیم کے کپتان تھے اور اگر ان کی ٹیم میں کوئی میچ فکسنگ یا سپاٹ فکسنگ کر رہا تھا تو ان پر نظر رکھنا ان کی ذمہ داری تھی۔ اسی لیے اسد عمر کو تبدیل کر دیا گیا تھا۔ ایک اہم پوسٹ گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ کی تھی اور ایک چئیرمین ایف بی آر کی تھی۔ طارق باجوہ کا اگر پروفائل دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ مسلم لیگ ن اور شریف خاندان کے بہت چہیتے افسر تھے۔
2013ء تک سیکرٹری فنانس پنجاب رہے۔ مرکز میں آئے تو چئیرمین ایف بی آر بنے جس سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں اسٹیٹ بینک کا گورنر لگایا گیا۔ ان کی تعیناتی کو سینیٹ میں کئی سینیٹر نے تنقید کا نشانہ بھی بنایا جبکہ سینیٹ میں اس حوالے سے ایک قرارداد بھی منظور کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سے جب ملاقات ہوئی تو ہم نے سوال کیا جس پر عمران خان نے کہا کہ ڈالر کی قیمت میں جو زیادہ اضافہ ہوا اس کا مجھے میڈیا کے ذریعے علم ہوا۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے اسد عمر کو ایک ایسی گولی دی تھی کہ انہیں بھی اس حوالے سے کچھ معلوم نہیں تھا جبکہ حیرت انگیز طور پر اس حوالے سے تمام فیصلے طارق باجوہ کر رہے تھے۔اس سے قبل بھی دو مرتبہ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات میں گورنر اسٹیٹ بینک اور چئیرمین ایف بی آر سے متعلق سوالات اٹھائے گئے جس پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہمارے پاس یہی لوگ ہیں ، مجھے یہی بتایا گیا ہے کہ یہ لوگ زبردست ہیں۔ کارکردگی کے حوالے سے سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ اگر یہ لوگ پرفارمنس نہیں دکھائیں گے تو انہیں گھر بھیج دیا جائے گا۔
اسد عمر کی چھٹی ہونے اور حفیظ شیخ کے آنے کے بعد علم ہوا کہ طارق باجوہ تمام تر معلومات لیک کر رہے تھے اور تمام معلومات لندن میں بیٹھے اسحاق ڈار تک معلومات جا رہی تھیں۔ اور یہ انفارمیشن کسی اور نے نہیں بلکہ خود مسلم لیگ ن کی رہنما ماروی میمن نے دی تھی۔ واضح رہے پاکستان کے وزیر خزانہ اسد عمر کے کابینہ سے الگ ہونے کے اعلان کو مبصرین عمومی طور پر پارٹی کے لیے ایک بڑا دھچکا تصور کررہے ہیں۔ اسد عمر کو پارٹی کا ’پوسٹر بوائے‘ مانا جاتا تھا اور تو اور وزیر اعظم کو بھی ان کی قابلیت اور صلاحیت پر بھرپور اعتماد تھا۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں ان کی رخصتی نے پارٹی میں ہونے والی فیصلہ سازی پر شدید سوالات اٹھا دیے ہیں۔واضح رہے کہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے چند دن پہلے میڈیا میں وزارتوں کے قلم دان میں تبدیلی کی خبروں کو مسترد کردیا تھا اور نہ صرف یہ بلکہ میڈیا کو تلقین بھی کی تھی کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔پاکستان کے وزیر خزانہ اسد عمر کے کابینہ سے الگ ہونے کے اعلان کو مبصرین عمومی طور پر پارٹی کے لیے ایک بڑا دھچکا تصور کررہے ہیں۔ اسد عمر کو پارٹی کا ’پوسٹر بوائے‘ مانا جاتا تھا اور تو اور وزیر اعظم کو بھی ان کی قابلیت اور صلاحیت پر بھرپور اعتماد تھا۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں ان کی رخصتی نے پارٹی میں ہونے والی فیصلہ سازی پر شدید سوالات اٹھا دیے ہیں۔