حامد میر
یہ 31اکتوبر کی شب تھی اسلام آباد ایئر پورٹ پر ابوظہبی جانے والی پرواز کے مسافروں نے ایک چھوٹی سی ٹی وی اسکرین کے گرد جمگھٹا لگا رکھا تھا۔ ٹی وی اسکرین پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کے قافلے پر پنجاب پولیس کی طرف سے آنسو گیس کی شیلنگ دکھائی جا رہی تھی۔ ان مناظر کو دیکھ کر مسافر پریشان ہو رہے تھے جبکہ میں ایک کونے میں بیٹھا جرمن مصنف ہائن جی کیسلنگ کی انگریزی میں شائع ہونے والی نئی کتاب ’’ دی آئی ایس آئی آف پاکستان‘‘ کے مطالعے میں مصروف تھا۔کچھ مسافروں کیلئے ٹی وی اسکرین پر مسلسل دکھائی جانے والی مارکٹائی اور ہنگامے سے میری بے نیازی بڑی حیران کن تھی ۔ ایک مغربی سفارت کار مجھے پہچان کر قریب آئے ہاتھ ملایا اور سرگوشی کے انداز میں مجھے پوچھا …’’کیا آپ پاکستان واپس آئیں گے ؟‘‘میری ہنسی چھوٹ گئی میں نے سفارت کار کو بتایا کہ پریس فریڈم کا ایک انٹرنیشنل ایوارڈ لینے کیلئے ہالینڈ کے شہر دی ہیگ جا رہا ہوں ۔2نومبر کو ایوارڈ وصول کر کے تین نومبر کو واپس پاکستان آ جائوں گا۔ سفارت کار نے کہا کہ 2نومبر کو اسلام آباد میں بہت ہنگامہ ہو سکتا ہے اس لئے کئی سفارت کار اسلام آباد چھوڑ رہے ہیں ۔ میں نے اسے بتایا کہ 2نومبر کو کچھ نہیں ہو گا اس نے بڑے غور سے میری آنکھوں میں جھانکا شاید اسے میری ذہنی حالت ٹھیک محسوس نہ ہوئی ۔اس دوران مجھے عقب سے ایک خاتون کی آواز سنائی دینے لگی خاتون بظاہر بڑے رازدارانہ لہجے میں کسی سے مخاطب تھیں لیکن کئی مسافر مسکرا مسکرا کر انکی گفتگو انجوائے کر رہے تھے۔ خاتون کسی کو بتا رہی تھیں کہ جس فلائٹ سے میں ابوظہبی جا رہی ہوں اسی فلائٹ سے حامد میر بھی پاکستان سے بھاگ رہا ہے، بیچارا کرے بھی تو کیا کرے 2نومبر تک مارشل لاء تو لگ ہی جانا ہے اور پھر حامد میر جائے گا جیل تو کیا ضرورت ہے جیل جانے کی یہ نواز شریف تو پھر کوئی ایگریمنٹ کرکے بال بچوں سمیت جدہ چلا جائے گا لیکن اس بیچارے حامد میر کو جیل سے کون چھڑائے گا ۔ کچھ دیر گفتگو کے بعد خاتون نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا کہ اچھا تمہیں یقین نہیں آ رہا تو میں ایک سیلفی بنا کر بھیجتی ہوں ۔ پھر یہ خاتون میرے سامنے آ کھڑی ہوئیں اور ایک سیلفی کی فرمائش کر دی ۔ سیلفی لینے کے بعد خاتون نے بڑے مدبرانہ انداز میں کہا کہ مارشل لاءکی جیل جانا کوئی بہادری نہیں پاکستان سے باہر بیٹھ کر مار شل لاء کے خلاف تحریک چلانا اصل بہادری ہے مجھے یقین ہے کہ آپ ابوظہبی سے لندن جائیں گے میں بھی لندن جا رہی ہوں اور کچھ دن وہی رہونگی اس دوران مار شل لاء لگ گیا تو آپ کے ساتھ مل کر سڑکوں پر نعرے لگائوں گی۔ میں نے کوئی وضاحت کئے بغیر خاتون کا شکریہ ادا کیا اور بیٹھ گیا۔
پرواز کی روانگی کا وقت ہو چکا تھا سب مسافر اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تو کچھ دور بیٹھے ایک صاحب نے مجھے مخاطب کیا اور کہا ’’میاں صاحب تو گئے کام سے ‘‘ میں انہیں پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔ شاید وہ ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ تھے پھر وہ اپنے ساتھ بیٹھی ایک غیر ملکی خاتون کو انگریزی میں میرے متعلق بتانے لگے کہ یہ ایک مشہور صحافی ہے اور پاکستان سےبھاگ رہا ہے ۔جہاز فضا میں بلند ہو گیا تو ان صاحب نے مسکرا کر مجھے کہا کہ ابھی خطرہ ختم نہیں ہوا اگلے تین چار گھنٹوں میں مار شل لاء لگ گیا تو آپ کو ابوظہبی ایئر پورٹ پر بھی حراست میں لیا جاسکتا ہے ۔ میں مسلسل خاموش تھا اور کتاب دوبارہ کھول چکا تھا ریٹائرڈ بیوروکریٹ کی بے چینی دیدنی تھی۔ انہوں نے اپنے ہینڈبیگ میں سے ایک فائل نکالی فائل میں سے ایک کاغذ نکالا اور اپنی نشست سے اٹھ کر میرے پاس آئے کاغذ کو لہرایا اور گویا ہوئے ’’جناب آپ نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ تبدیلی ستمبر یا اکتوبر میں نہیں بلکہ نومبر میں آئے گی اور نومبر شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل آپ پاکستان چھوڑ رہے ہیں کچھ ہمیں بھی بتائیے کہ کیا ہونے والا ہے ؟‘‘ میں نے یہ کاغذ ان کے ہاتھ سے لیا تو یہ 12ستمبر 2016ء کو روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے کالم کی نقل تھی میں نے مسکرا کر اس مہربان سے عرض کیا کہ اس کالم میں یہ واضح طور پر لکھا ہے کہ اب کی دفعہ تبدیلی آئی تو مارشل لاء کے ذریعہ نہیں آئے گی بلکہ اسی طرح آئے گی جیسے 2012ء میں آئی تھی یعنی وزیر اعظم بدل گیا تھا لیکن باقی حکومت نہیں بدلی تھی ۔ موصوف نے دوبارہ اپنی فائل کی ورق گردانی شروع کر دی اور پھر زور زور سے سر ہلا کر کہنے لگے کہ جی جی آپ نے 10اکتوبر کے کالم میں لکھا تھا کہ نواز شریف استعفیٰ نہیں دیں گے لیکن انہیں آئین و قانون کے اندر رہ کر حکومت سے نکالے جانے کا خطرہ موجود ہے۔ پھر انہوں نے ایک اور کالم نکال لیا یہ میرا نہیں بلکہ کسی اور صاحب کا تھا اور اس کالم میں جنرل راحیل شریف کو ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں آنے کی ترغیب دی گئی تھی۔ موصوف نے پوچھا کہ آپ کے خیال میں راحیل شریف سیاست میں آئیں گے یا نہیں ؟ میں نے جواب میں کہا کہ یہ تو اسی سے پوچھئے جس نے کالم لکھا ہے لیکن ان کے سیاست میں آنے سے ایسے لوگوں کو آسانی ہو جائے گی جو ان سے کوئی شکوہ شکایت رکھتے ہیں جسٹس افتخار محمد چوہدری کی عزت وشہرت جنرل راحیل شریف سے زیادہ تھی لیکن سیاسست میں آکر وہ کہیں غائب ہو گئے ہیں ۔ راحیل شریف کو سیاست میں آکر کم از کم یہ تو بتانا پڑے گا کہ انہوں نے وہ کون سا کام مکمل کیا جو کارنامہ کہلا سکتا ہے۔ اس دوران ایئر ہوسٹس آ گئی اور اس نے ریٹائرڈ بیوروکریٹ کو اسکی نشست پر واپس بھیج دیا کیونکہ جہاز جھٹکے کھانے لگا تھا۔ یہ جھٹکے میرے لئے رحمت کا باعث بن گئے۔
یہ خاکسار یکم نومبر کو ابوظہبی سے ایمسٹرڈیم اور وہاں سے دی ہیگ پہنچا۔2نومبر کو ایوارڈ وصول کیا اور 3نومبر کی شب اسلام آباد واپس پہنچا تو کچھ بھی نہ بدلا تھا ۔ عمران خان نے 2نومبر کے لاک ڈائون کو یوم تشکر میں تبدیل کر دیا کیونکہ وزیر اعظم اور ان کا خاندان سپریم کورٹ میں تلاشی پر آمادہ ہوگئے تھے تاہم عمران خان کو یہ خبر نہیں کہ اس مرتبہ بھی کچھ لوگوں نے انکی حمایت کا تاثر تو دیا لیکن عملاً کچھ نہیں کیا اور 2نومبر کو کہیں نظرنہ آنے کے عوض بہت کچھ وصول کر لیا۔ عمران خان کو ان کے کچھ ساتھیوں نے کہا کہ سپریم کورٹ پر اندھا اعتماد نہ کیا جائے لیکن خان صاحب کے پاس سپریم کورٹ پر اعتماد کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔ سپریم کورٹ پانامہ پیپرز پر جو بھی فیصلہ کریگی عمران خان کو وہ فیصلہ قبول کرنا پڑے گا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمران خان کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی۔ اصل اہمیت تاریخ اور عوام کی ہے عدالتوں کے فیصلوں پر خلق خدا بھی ایک فیصلہ دیتی اور یہی فیصلہ تاریخ کا فیصلہ کہلاتا ہے ۔