گزشتہ کئی ماہ سے ملک خداداد پاکستان میں جمہوریت کی بقاء کی خاطر کیا کچھ داؤ پر لگایا جا چکا ہے یہ تو شائد لگانے والوں کو بھی معلوم نہیں ہے۔ اس جمہوریت کی آڑ میں اپنی اپنی مرضی کے قوانین مرتب دیے جاتے رہے ہیں جن کی مدد سے اپنے اقتداروں کو دوام بخشا جاسکے۔ بلکل ایسا کارنامہ موجودہ حکومت سرانجام دے رہی ہے۔ قانون میں ہر وہ تبدیلی کی جارہی ہے جو حکومت وقت کوکسی بھی طرح بچالے اور کی جانے والی بدعنوانیوں کو بدعنوانی کی فہرست سے نکلوادیں۔
ترامیم کرتے ہوئے اس بات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے کہ آنے والے وقتوں میں ان ترامیم سے کیسے کیسے لوگ مستفید ہوں گے۔ ان سیاستدانوں کو تو اپنی آنے والی نسلوں تک کا کوئی خیال نہیں ہے۔ بظاہر تو نہیں مگر محسوس ایسا ہورہا ہے جیسے فوج کے صبر کو آزمایا جا رہا ہے کیونکہ عوام تو بس ووٹ دینے کی گنہگار ہوتی ہے، اس کے بعد تو یہ لوگ اپنی اپنی بقاء کی لڑائی ملک کے مقدس اسمبلی حالوں میں بیٹھ کر لڑتے ہیں۔
ہم یہ قطعی بھول چکے ہیں کہ ہم ہر لمحہ تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ ہمارا ہر اٹھنے والا قدم تاریخ کے ورق پر اپنے نشان ثبت کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ ہم نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا بس ایک دوسرے کو سبق سکھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمیں تو افسوس بھی نہیں ہوتا کہ اپنے عارضی ٹھکانوں کو پائیدار بنانے کے چکر میں ہمارے اقدامات غلط صحیح کے پیمانوں سے ماورا ہوتے جا رہے ہیں۔
یہ بات عملی طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارے سیاستدان پاکستان کی آزادی سے لے کر آج تک پاکستان کو مال غنیمت سمجھتے رہے ہیں۔ جس کا جو دل چاہا ہے اس نے وہی کیا ہے اور پھر یہی لوگ قوانین میں اپنی مرضی کی ترمیمیں کر کے پھر سے ایسے ہوجاتے ہیں جیسے کچھ کیا ہی نہ ہو اور ہم پاکستانی ووٹر انہیں کبھی اپنی کمزور کمر اور کبھی ناتواں کاندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے سابق وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف جنہیں اعلیٰ عدلیہ نے نا اہل قرار دے دیا ہے، سیاسی جماعت کی سربراہی کے لئے اہل قرار دے دیا ہے۔ یہاں لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اس اقدام سے دنیا میں ہماری ساکھ کو کتنا نقصان پہنچنے والا ہے کیونکہ دنیا یا تو ہمارے عدالتی نظام کا مذاق اڑائے گی یا پھر قانون ساز ادارے میں بیٹھے ان لوگوں کا جو جمہوریت اپنی اپنی اجارہ داری کو کہتے ہیں۔ عوام کی نظر میں یہ دن سیاہ دنوں میں اضافے کا دن تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ہر پاکستانی کو سمجھ آجانی چاہئیے کہ اب کوئی نااہل بھی نااہل نہیں ہوسکتا۔ اس قانون کے حق میں ووٹ دینے والے اقتدار کے نشے میں اندھے ہوچکے ہیں اور یہ بھول چکے ہیں کہ ان کے اقتدار کے تو بس چند ماہ رہ گئے ہیں مگر یہ جن نا اہل لوگوں کو اپنے اوپر مسلط کر کے جا رہے ہیں اس سے نہ صرف سیاسی اقدار کی پامالی ہوئی ہے بلکہ معاشرتی اقدار کو بھی ٹھیس پہنچی ہے۔
انصاف تو قانون کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ کوئی بھی فرد اتنی بڑی کرسی پر بیٹھ کر اپنی مرضی کا انصاف نہیں کرسکتا اور کسی کو اپنی مرضی کے خلاف سزا نہیں سنا سکتا۔ اگر ایسا ہوسکتا تو شائد جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان ججوں سے مجھے انصاف کی توقع نہیں، تو انہیں یہ جج ایسا فیصلہ سنا سکتے تھے جس سے انہیں راتوں رات پھانسی بھی ہو سکتی تھی۔ بادشاہ ِ وقت کو یہ بات باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ان کی سیاست کا ہنی مون اب ختم ہوچکا ہے۔ اب انہیں زمین پر رہنا پڑے گا اور وہ زمین کسی قید خانے کی بھی ہوسکتی ہے۔
ملک کے دو اہم ترین اداروں سے نااہلیت کی سند لینے کے باوجود ایک فرد اپنے انا کے خول سے نکلنے کیلئے تیار ہی نہیں ہے۔ لوگ ہم سے سوال کر رہے ہیں کہ اگر ہماری عدالتیں اور ہمارا نظام عدل بے معنی اور اعتبار کے قابل نہیں تو پھر دوسرا کون رہ جاتا ہے جس پر بھروسہ کیا جائے؟ اس سوال کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک کے دو اہم ترین ستون فوج اور عدلیہ بدعنوانوں کو اپنے خلاف لگ رہے ہیں۔ جن اداروں پر یہ سیاستدان تنقید کر رہے ہیں کیا انہوں نے کبھی ان اداروں کو بطور انتقام استعمال نہیں کیا؟
ہر ادارہ دوسرے ادارے یا اداروں کو یہ باور کرانے میں مصروف ہے کہ آپ اپنی حدود پار نا کریں مگر اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ وہ ادارہ خود اپنی کتنی حدود میں رہ کر کام کر رہا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اداروں کی حدود کا تعین کون کرے گا، اگر ادارے خود ہی ان حدود کا تعین کریں گے تو دوسروں کیلئیے تو مشکلات ہی مشکلات ہوں گی۔ قوم کو یہ وضاحتیں مطلوب ہیں۔ ورنہ ہم تو یہی سمجھتے رہیں گے کہ شریف خاندان کے خلاف عدالتوں نے اپنی حدود پار لی ہیں۔ دھرنے والوں سے معاہدہ کرنے پر پاک فوج نے اپنی حدود پار کرلی ہیں۔ ایوان کے نمائندے ان اداروں پر تنقید کی صورت میں اپنے حدود سے تجاوز کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کون اداروں کی حدود کا تعین کرسکتا ہے اور کون ان حدود کو پار کرنے سے روک سکتا ہے؟ کسی کو تو ذمہ داری لینی ہی ہوتی ہے۔
پاکستان کے اتنے برے حالات دیکھ کر دل گواہی دیتا ہے کہ کوئی غیبی طاقت ہے جو خصوصی طور پر ہمارے ملک کو چلا رہی ہے۔ بے ضابطگیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ صدر سے لے کر چپڑاسی تک سب اپنی اپنی حیثیت کے مطابق بدعنوانیوں میں ملوث ہیں اور اگر کوئی کسی بدعنوانی میں ملوث نہیں ہے تو اسے ابھی تک موقع نہیں ملا۔ میں ان چند لوگوں سے شرمندہ ہوں جو بدعنوان نہیں ہیں مگر بد عنوانوں کے ساتھ چل رہے ہیں۔
بس اب کسی معجزے کا ظہور ہونے والا ہے جو اس ملک کیلئے حتمی فیصلہ ہوگا۔ اس معجزے کے بعد شائد ہم یہ پوچھنے کیلئے بھی شائد نا بچ پائیں کہ اب یہ منظر کون بدلے گا؟