ملک کے ان سرکاری اداروں کے سوا جن کے ذمے حکومت نے یہ کام بذریعہ قوانین سپرد کر رکھا ہے کسی دوسرے کا حق نہیں بنتا کہ وہ
کھوج لگاتا پھرے کہ فلاں کے پاس کتنی دولت ہے اور کہاں سے آ گئی، یہ ضرور ہے کہ واضح اور حتمی ثبوت کے ساتھ بیان حلفی کے ہمراہ ناجائز کاری اور بدعنوانی کے مرتکب کسی بھی شخص یا ادارے کے خلاف متعلقہ محکمے کے پاس شکایت درج کرانا ہر شہری کا فرض بنتا ہے۔
کافی عرصہ سے یہ عادت ایک فیشن بن چکی ہے کہ ہر صاحب اقتدار اپنی ہر نااہلی اور عوام کی ہر مصیبت کا ذمے دار سابق حکمرانوں کو ٹھہرا کر بری الذمہ ہونے کی روش اپنا رہا ہے اور موجودہ حکمرانوں کے مخالفین ان پر جوابی الزامات کی بوچھاڑ کرکے زبانی جمع خرچ کی پالیسی پر عمل پیرا رہ کر اپنے فرض سے گویا سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ اہل دانش اس نورا کشتی کو مک مکا کا نام دیتے ہیں جب کہ واقفان احوال کہتے ہیں کہ اقتدار کے قابضین کے پاس جانے والے حکمرانوں کی مصدقہ فائلیں اور چلے جانے والے حکمرانوں کے پاس نئے آنے والے حکمرانوں کی سیاہ کرتوت فائلیں پہلے ہی سے موجود و محفوظ ہوتی ہیں۔
دوسرے بہت سے ممالک میں بھی ہم جیسا تناسب ہو گا کہ آبادی کی اکثریت خط غربت سے نیچے گزر بسر کرتی ہو گی اور ان سے اوپر سفید پوش عوام ہوں گے جب کہ ایک قلیل تعداد طبقۂ امرأ کی ہو گی۔ امیر اور صاحب ثروت ہونا کوئی بری بات ہے نہ گالی لیکن بے تحاشہ امرأ کی دو اقسام ہیں ایک وہ جو پشتینی امیر ہیں اور اب اپنی محنت یا کاروباری وسعت کے نتیجے میں مزید مالدار ہو گئے ہیں۔ ان ہی کی ایک شاخ ایسی ہے جنھوں نے درمیانے درجے کا بزنس کیا اور کاروباری دور میں ان کا فلوک لگ گیا اور ان کی امارت کا گراف ان کی مہارت سے نہیں کاروباری زیروبم سے یکدم اوپر چڑھ گیا۔ اس کو عرف عام میں چھپڑ پھاڑ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
دولت مندوں کی ایک دوسری قسم عرصہ سے بتدریج ابھر رہی ہے جن کی دولت کے ذرایع کرپشن، ناجائز کاری، بدعنوانی، کمیشن، بدمعاشی، غنڈہ گردی ہوتے ہیں اور اس کیٹیگری میں حکمران اور ان کے مختلف لیول کے ٹاؤٹوں اور مڈل مینوں کا نام لیا جا سکتا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ الزام اور جوابی الزامات کی تو بھر مار ہے لیکن انھیں ثابت کر کے فریق مخالف کے چہرے پر سیاہی ملنے کے لیے عملی اقدام اٹھانے سے گریز کیا جاتا ہے۔
ایسے ایسے سنگین الزامات جلسوں اور ٹی وی ٹاک میں مخالفین پر لگائے جاتے ہیں کہ ان میں سے ایک الزام بھی عدالت میں ثابت ہو جائے تو الزام علیہ نہ صرف کال کوٹھڑی کا مہمان ہو جائے بلکہ پبلک لائف ہی سے ہمیشہ کے لیے آؤٹ ہو جائے لیکن جب الزام ثبوت کے ساتھ منظر عام پر نہیں لایا جاتا تو عوام بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے، اس لیے بہتر ہو گا کہ سیاستدان اور لیڈر حضرات یہ چور سپاہی کا کھیل ترک کر دیں اور صرف اپنی کارکردگی پر سیاست کریں عوام کے جذبات سے کھیلنا بند کر دیں۔
میرے ایک کرم فرما نے جو عرصہ دراز سے روزانہ صبح دو گھنٹے کے لیے لائبریری جاتا ہے اور اخبار کھنگالتا ہے۔ کئی سال کے عرصہ پر محیط سیاسی اور سماجی شخصیات کے ان بیانات کا ڈیٹا مرتب کر رکھا ہے جن میں مذکورہ افراد نے اپنے مخالف دھڑوں کے بااختیار لوگوں کی کرپشن اور بدعنوانیوں کو تفصیل کے ساتھ بے نقاب کیا ہے اور پھر جو الزامات دوسری طرف سے فریق اول پر تھونپے گئے ہیں، ان کی تفصیل بھی اپنی ڈائری میں درج کر رکھی ہے۔ انھوں نے یہ ڈائری مجھے مطالعے کے لیے دی جس میں ملک کے نامی گرامی افراد کے نام اور کئی جگہ ناجائز مبینہ رقوم اور اراضی کی تفصیل بھی تھی۔ جن افراد کے نام تھے وہ تمام جانے پہچانے تھے۔
ناجائز دولت کی تفصیل بھی تھی لیکن یہ تمام کا تمام ڈیٹا غیر مصدقہ ہونے اور الزامات کی زد میں لائے گئے اشخاص کا جانا پہچانا ہونے کی وجہ سے اس ڈیٹا کا نشر کرنا مناسب نہ ہو گا۔ میں نے صرف مبینہ ناجائز دولت کی تفصیل تیار کروائی ہے۔ ایک ماہر حساب دان نے مجھے یہ ضرور بتایا ہے کہ اگر یہ غیر مصدقہ ڈیٹا پچیس فیصد بھی درست مان لیا جائے تو ملک پر تمام کے تمام قرضے مع سود واپس کیے جا سکتے ہیں جب کہ کافی رقم قومی خزانے کے لیے بچ جائے گی۔
طبقہ امرا کی بات سے دولت کے استعمال کا خیال آتا ہے کہ دنیا کی امیر ترین شخصیات میں سے بہت سوں نے اپنی دولت کا کثیر حصہ فلاحی کاموں کے لیے وقف کر کے نیک نامی کمائی اور انھوں نے اس نیک نامی کو اپنی اصل کمائی سمجھا۔ ہمارے ملک میں بھی بہت سے لوگ ہیں جنھوں نے دنیا کمانے کے ساتھ ساتھ آخرت بھی کمائی لیکن اکثریت جنھیں ’فلتھی رچ‘ کہا جا سکتا ہے ایسوں کی ہے جو اپنی دولت وراثت میں چھوڑ جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
کچھ لوگ البتہ اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جن کے بارے رائے قائم کرنے میں ان کی خدمت خلق کے کارناموں کے باوجود کچھ دقت ہوتی ہے۔ اپنی اس مشکل کی وضاحت کے لیے میں کئی سال قبل لکھے ہوئے کالم کا پیرا گراف جو اخبار کے بعد میری تیسری کتاب میں بھی چھپا ہے تحریر کرتا ہوں۔
’’دس سال قبل میں صوبے کے سابق گورنر کے ہمراہ ایک پہاڑی شہر کے معروف کالج کے وسیع ہال میں بیٹھا تھا۔ ایک مشہور شخصیت نے ہال میں 105 جوڑے بلا کر صوفوں پر بٹھا رکھے تھے، مسلم کرسچین اور ہندو رسوم کے مطابق 105 ایجاب و قبول ہوئے، گورنر نے بتایا کہ ان اجتماعی شادیوں کے لیے مستحق جوڑوں کا انتخاب جس مخیر شخصیت نے کیا ہے، ان کی رخصتی کے ساتھ ہی ہر نو بیاہتا غریب دولہا دلہن کے لیے جہیز کا سامان جو ٹرکوں میں لدا ہوا ہے، شادی کے ہال سے سیدھا ان کے گھروں میں اتارا جائے گا۔ یہ بہت احسن اقدام تھا۔
گورنر کی بیگم کے دست مبارک سے ہر دلہن نے سونے کا ایک ایک سیٹ بھی وصول کیا۔ اس فنکشن کی بھر پور کیمرہ کوریج ہوئی۔ اختتام پر کالج کے پرنسپل نے ہم آٹھ دس مصاحبین اور گورنر کی اپنے کمرے میں ریفریشمنٹ سے تواضع کی۔ ملٹری سیکریٹری ٹو گورنر ایک منسٹر اور میں کھڑے چائے پی رہے تھے۔ فنکشن کے سپانسر اپنے ایک پراجیکٹ کی تفصیل بتاتے ہوئے جذباتی ہو رہے تھے اور گالف کورس کا بڑے فخر سے ذکر کرنے لگے۔
خود گولفر ہونے کی وجہ سے مجھ سے نہ رہا گیا اور ان سے کہا جناب لاہور میں گالف کھیلنے کا پروگرام بنے تو لاہور جمخانہ کلب میں آپ میرے مہمان ہوں گے۔ ان کا جواب آج بھی میرے کانوں میں گونج رہا ہے۔ وہ عجب سے انداز میں بولے ’’محترم میں گالف نہیں پیسے کے ساتھ کھیلتا ہوں‘‘۔