قصور میں ہونے والے پے درپے واقعات نے جہاں ہمارے معاشرے کے اخلاقی زوال کو برہنہ کر دیا وہاں سوسائٹی میں بچوں کو جنسی ہراسمنٹ کے بارے میں شعور دینے کی بحث شروع ہو گئی ہے۔ یہ بحث بچوں کے لیے محفوظ معاشرہ کی طرف پہلا مثبت قدم ہے۔ اس سلسلے میں بچوں کو ٹریننگ دینے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں لیکن ہم بھول رہے ہیں کہ اس ٹریننگ کی بچوں سے زیادہ ان کے والدین اوراساتذہ کو ضرورت ہے۔ انہیں سیکھنے کی ضرورت ہے کہ بچوں کی تربیت کس طرح کرنی ہے۔
زینب اور اس جیسی بچیوں اور بچوں کے ساتھ زیادتی کا اس لیے پتہ چل جاتا ہے کے یہ جنسی جنونی زیادتی کے بعد انہیں مار دیتے ہیں لیکن ہزاروں بچے ایسے ہیں جنھیں اسکولوں، مدرسوں ، گھروں اور دکانوں پر زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور وہ بچے ڈر، شرم یا لالچ کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں اور یوں انکا جنسی استحصال ہوتا رہتا ہے۔ جب یہی بچے بڑے ہوتے ہیں تو اس گھناؤنے کھیل کو دہراتے ہیں۔
مذہب نے اسکے لیے واضح ہدایات دی ہیں بلکہ سخت سزائیں بھی مقرر کی ہیں لیکن بدقسمتی سے ان واقعات کا زیادہ ظہور مدارس میں ہوتا ہے جہاں یہ واقعات رپورٹ نہیں ہوتے اس لیے سزائیں بھی نہیں ہوتی۔ ہماری معاشرتی اقدار بھی اس طرح کے قبیح افعال کی اجازت نہیں دیتی لیکن پھر بھی ہوس کا یہ ننگا ناچ ہمارے کھیتوں، اسکولوں، بند کمروں اور مدرسوں میں جاری رہتا ہے۔
اس صورت حال میں ہم اپنے بچوں کو کس طرح بچائیں؟ ویسے تو ایک مہذب معاشرے کا ارتقاء ایک با تدریج عمل ہے۔ ہمیں شاید کئی سو سال چاہئیے اس مقام تک پہنچنے کے لیے جہاں اعلیٰ اخلاقی اقدار پر لوگ اپنے ارادے اور مرضی سے عمل کرتے ہیں لیکن اس وقت ہم بطور قوم جس انحطاط کا شکار ہیں، اس میں بہت سخت اور بہت تیز اقدامات کی ضرورت ہے ۔
سب سے پہلے حکومت کو اس طرح کے مجرموں کو سخت اور فوری سزائیں دینے کی ضرورت ہے۔
اساتذہ اور والدین کی ٹریننگ کی بھی اشد ضرورت ہے۔ انہیں چاہئیے کہ وہ اپنے بچوں کونہ صرف جنسی ہراسمنٹ کا شعور دیں بلکہ بچوں میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر بھی رکھیں۔
میں اس وقت ڈنمارک میں بچوں کی تدریس کی ٹریننگ پروگرام کا حصہ ہوں۔ اس ٹریننگ میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ کیا چیزیں ہراسمنٹ ہیں۔ اور وہ کیا نشانیاں ہے جس سے آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کے بچے کو جنسی طور پر ہراساں کیا جا رہا ہے یا اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اگر آپ کا بچہ یا طالب علم بہت زیادہ خاموش ہو گیا ہے، کسی سے بات نہیں کر پاتا یا کرنا نہیں چاہتا یا اس میں اعتماد کی کمی ہو گئی ہے، یا اس کے نمبرز کم آنے لگے ہیں یا اسے بہت غصّہ آنے لگا ہے اور وہ بہت زیادہ لڑنے لگا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اسے جسمانی ،نفسیاتی یا جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس سے بات کریں۔ اس پر اعتماد کا اظہار کریں تاکہ وہ آپ کو اپنے ساتھ ہونے والا ظلم بتاۓ۔
زیادہ تر بچے اس لیے کسی کو کچھ نہیں بتاتے کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں ان پر اعتماد نہیں کیا جاۓ گا- کچھ کو لگتا ہے کہ یہ انکی اپنی غلطی ہے اسی لیے انکے ساتھ یہ سب ہوا یا پھر ان بچوں کو ڈرایا جاتا ہے کہ ہم تمہیں یا تمہارے گھر والوں کو مار دینگے۔
بچوں میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھیں۔ والدین بننا ایک فل ٹائم جاب ہے۔ بچے تو جانور بھی پیدا کرتے ہیں اور انھیں کھانا بھی دیتے ہیں۔ ہم انسانوں پر الله نے بھاری ذمےداری دی ہے۔ ہمیں ان گوشت کے لوتھڑوں کو انسان بنانا ہے، ایک اچھا انسان اور جب تک یہ اپنے پیروں پر کھڑے نہ ہو جائیں انکی حفاظت کرنی ہے۔ ہمیں بچوں کی ذہنی ،نفسیاتی جسمانی ساری ضرورتوں کا خیال رکھنا ہے۔ استاد کا رتبہ تو والدین سے بھی زیادہ ہوتا ہے، اس لیے انکی ذمے داری بھی اتنی ہی ہوتی ہے جتنی ماں باپ کی۔ اپنی ذمے داریوں کو پورا کریں تاکہ ہمیں کل کسی اور زینب پر ماتم نہ کرنا پڑے۔
اس طرح کے چند اقدامات سے شاید ہم اپنے بچوں کو کسی حد تک جنسی طور پر ہراساں ہونے یا جنسی تشدد سے بچا لیں مگر اجازت ہو تو یہ کہنے کی جسارت کروں کہ ان بچوں پر جو نفسیاتی اور جسمانی تشدد ماں باپ اور اساتذہ کرتے ہیں، اس تشدد سے انہیں کون بچاۓ گا؟
یورپی ممالک میں اگر والدین اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے تو ریاست ان سے بچے لے لیتی ہے اور انھیں خود پالتی ہے اور اگر اساتذہ اپنی ذمےداری پوری نہ کریں تو انہیں اپنی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ اگر کوئی فرد چاہے وہ والدین ہوں یا اساتذہ، بچوں پر کسی قسم کے نفسیاتی، جسمانی یا جنسی تشدد میں ملوث پایا جاتا ہے تو ریاست حرکت میں آتی ہے اور اسے قرار واقعی سزا ملتی ہے لیکن ہماری ریاست اپنے بچوں کی حفاظت کرتی ہے؟ ایسے بچے جو یتیم خانوں یا فلاحی اداروں میں پل رہے ہیں کیا وہ محفوظ ہیں؟ اگر کسی بچے یا بچی کو اپنے والدین کی طرف سے کسی جنسی ہراسمنٹ کا سامنا ہو تو کیا وہ سرکاری اداروں میں محفوظ ہو گا؟
بچوں پر جنسی تشدد نہ بھی ہو تو ان پر بد ترین جسمانی تشدد کیا جاتا ہے، اتنا تشدد کہ یا تو انکے ہاتھ پاؤں توڑ دیے جاتے ہیں یا پھر جان سے ہی مار دیا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال کراچی کے ایک مدرسے میں ایک بچے کی اپنے استاد کے ہاتھوں ہلاکت ہے۔ ان کو سزائیں کون دے گا؟ کون اس معاشرے کو بچوں کے لیے محفوظ معاشرہ بنائے گا؟
کون والدین کو یہ بتاۓ گا کہ بچے کو پیدا کرنے سے آپ کو ان پر جسمانی یا نفسیاتی تشدد کرنے کا حق حاصل نہیں ہو جاتا۔ ان مولویوں کو کون بتاۓ گا کہ قوم لوط کیوں تباہ کی گئی تھی ہمارے بچوں کو ان کے والدین، استادوں، مولویوں اور محلے داروں سے کون بچاۓ گا؟