برصغیر پاک و ہند کے حکمرانوں میں سے دو کردار ایسے ہیں جو دو علامتوں کے طور پر آج بھی مسلمان معاشرے میں بار بار ابھرتے اور ڈوبتے نظر آتے ہیں۔ ایک کردار اکبر کا ہے اور دوسرا اورنگ زیب کا۔ لیکن دونوں کرداروں کے عہد کے بیچوں بیچ ایک ہستی کا وجود برصغیر کے مسلمانوں کے لیے رشد و ہدایت کی بجھتی شمع کو روشن کرنے اور اسلام کو ان تمام عقائد سے پاک کرنے کی وجہ سے جانا جاتا ہے جسے علاقائی تہذیب‘ معاشرت اور رسم و رواج کے نام پر اسلام کا حصہ بنایا جا رہا تھا۔ شیخ احمد سرہندی‘ جنھیں اقبال نے ’’سرمایۂ ملت کا نگہبان‘‘ کہا اور جنھیں دنیا مجدد الف ثانی کے نام سے جانتی ہے۔
فرانس کے بادشاہ لوئی اور دیگر امراء و روساء کے سر کاٹ کر لڑھکائے گئے تھے‘ انگلینڈ کے چارلس اول کی بھی گردن کاٹی گئی تھی لیکن برصغیر پاک و ہند ایسی کسی عوامی بغاوت سے کوسوں دور رہا یہ ایک خوشحال خطہ تھا‘ اور اس وقت دنیا بھر کی معیشت میں ہندوستان کا حصہ 23 فیصد تھا جب کہ انگریز جب برصغیر کو چھوڑ کر گیا تو ہندوستان کا دنیا کی معیشت میں حصہ صرف چار فیصد رہ گیا تھا۔ وہ کپڑا جو دنیا بھر میں ہندوستان کی پہچان تھا جس کے بارے میں لوگ کہتے تھے کہ یہاں کے جولاہے ایسی ململ بناتے ہیں جیسی ہوا‘ ان کی کھڈیاں جبراً بند کی گئیں‘ انھیں جیل میں ڈالا گیا‘ ا کثر جگہ بدترین تشدد کیا گیا اور پھر یہاں سے کپاس کی فصلیں اٹھا کر مانچسٹر کی ملوں کو دی گئیں اور وہاں سے کپڑا لا کر ہندوستانیوں کو بیچا گیا۔
ان عظیم مسلمان حکمرانوں اور انگریز کی حکمرانی کا فرق صرف ایک مثال سے واضح ہوتا ہے کہ جب دوسری جنگ عظیم کے دوران بنگال میں قحط پڑا جس میں چالیس لاکھ افراد مارے گئے جن میں 95 فیصد کے قریب مسلمان تھے‘ تو چرچل نے جنگ کی وجہ سے خوراک کے گوداموں کو تالے لگوا دیے اور کہا کہ بنگالی پہلے ہی کم کھاتے ہیں یا انھیں کم کھانے کو میسر ہے ۔اس لیے قحط کے دوران ان کو زیادہ خوراک بھیجنے کی ضرورت نہیں‘ انھیں کوئی فرق نہیں پڑے گا‘ کم بھوک برداشت کریں یا زیادہ۔ جب ایک افسر نے فائل پر قحط زدہ بنگالیوں کے بارے میں تحریر کیا تو اس نے فائل کے کونے پر تمسخر سے لکھا ’’why hasn’t Gandhi died yet‘‘ ’’ابھی تک گاندھی تو نہیں مرا‘‘ ۔ انگریز کی آمد سے پہلے یہ خوشحال ہندوستان تھا‘ جسے سونے کی چڑیا کہا جاتا اور جس کو لوٹنے کے لیے انگریز یہاں آیا تھا۔
اس خوشحالی کی بنیادی وجہ اسلام کا نظام عدل تھا جو اس ملک میں نافذ تھا۔ جرم خواہ چوری ہو‘ زنا، غیبت‘ ڈکیتی‘ دھوکا‘ عہد شکنی یا قتل‘ ان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اسی لیے اسلام نے ان کی سزا مقرر کرنے کا کہا کہ اگر تم یہ سزائیں نافذ کر دو گے تو معاشرے میں امن قائم ہو جائے گااور خوشحالی آئے گی۔
التمش سے لے کر انگریز کی آمد تک یہ سزائیں نافذ رہیں۔ اس عرصے میں ایک شخص برسراقتدار آیا جسے اکبر کہا جاتا ہے۔ اسے سیکولر ازم‘ لبرل ازم اور ادیان کے درمیان صلح کل تصور کا بانی بنایا جاتا ہے۔ اکبر نے بھی اپنے دور میں اسلام کے بنیادی نظام عدل اور قاضی عدالتوں کو ختم نہیں کیا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ایسا کرنے سے اس کی سلطنت میں جو انتشار پیدا ہوگا اسے سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ لیکن اس نے ذہنی تعیش کے لیے فلسفیانہ سطح پر ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھی جسے دین الٰہی کہا جاتا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ اکبر کے جاہ و جلال، مغلیہ سلطنت کی طاقت کے باوجود اس دین الٰہی کو صرف 19 پیروکار مل سکے۔ یہ تھے (1بیربل، (2 شہزادہ سلیم، (3 ابوالفضل، (4 قاسم خان، (5 اعظم خان، (6 عبدالصمد، (7 ملاشاہ محمد شاہ دار، (8 صوفی احمد، (9 میر شریف عمل، (10سلطان خواجہ، (11مرزا صدر الدین، (12 تقی شوستر، (13 گوسالہ بنارسی‘ (14سردار جہاں، (15فیضی، جعفر بیگ، (16 شہزادہ مراد، (18 صدر جہاں کا پہلا بیٹا اور (19 اس کا دوسرا بیٹا۔ اس دین کا مقصد بین المذاہب ہم آہنگی پیدا کرنا تھا۔ اس مذہب کے تمام تر عقائد موجودہ سیکولر اور لبرل نظریات کے علاوہ عالمی طاقتوں کے ایجنڈے سے کس قدر ہم آہنگ تھے۔
اکبر کے نزدیک، اللہ اور نبیوں کا کوئی وجود نہیں تھا اور وہ فلسفہ، فطرت اور تصوف کو عبادت کا عین مقصد سمجھتا تھا۔ اس کے نزدیک اس مذہب کی نہ کوئی مقدس کتاب تھی اور نہ مذہبی رہنما اور نہ ہی کوئی وارث۔ اس نے اپنے سب سے وفادار جرنیل راجہ مان سنگھ کو دین الٰہی قبول کرنے کے لیے کہا تو اس کا جواب تھا کہ میں مذہب کے حوالے سے یا تو ہندو مذہب کو جانتا ہوں، یا اسلام کو،آپ کہو تو مسلمان ہو جاتا ہوں لیکن یہ فلسفہ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ دین الٰہی پر آخری وقت تک صرف ایک ہی شخص کاربند رہا اور وہ بیربل تھا۔ شہزادہ سلیم یعنی جہانگیر بھی واپس لوٹ گیا۔ لیکن اس کے اسلام کی جانب واپس لوٹنے میں مجدد الف ثانی کی جدوجہد اور گوالیارکے قلعے میں ان کی ایک سال کی قید بھی شامل ہے۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ اگر مجدد الف ثانی کی ذات اس فلسفیانہ مذہبی سیکولرازم کے سامنے کھڑی نہ ہوتی تو تاریخ کسی اورنگ زیب نام کے شخص سے نا آشنا ہوتی۔ اسی لیے اقبال نے مجدد الف ثانی کے بعد اورنگ زیب عالمگیر کو برصغیر میں اسلام کا عظیم محافظ قرار دیا ہے۔ اورنگ زیب کو وہ ترکش کا آخری تیر کہتا ہے۔
درمیان کارزار کفر ودیں
ترکش مارا خدنگ آخریں
’’کفر اور دین کے معرکے میں وہ میرے ترکش کا آخری تھر تھا۔ اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں ایک فرانسیسی ڈاکٹر اور سیاح فرانکوس برنیئر ہندوستان آیا اور اس نے اپنا سفرنامہ تحریر کیا۔ اس کی تحریر سے اورنگ زیب کی جو تصویر ابھرتی ہے وہ ایک مسلمان‘ نیک خو‘ ایماندار اور عادل بادشاہ کی ہے۔ اقتباسات دیکھیے۔ ’’غضب کی گرمی تھی‘ اپنی کمزوری کے باوجود دن بھر روزہ رکھتا اور حکومت کے سارے کام کاج کرتا اور شام ہوتی تو درویشوں اور دنیا سے بیزار فقیروں کا سا کھانا کھاتا جس میں جو اور مکئی کی خشک روٹی ہوتی۔‘‘
شاہجہان کی بیماری کی طرح اس کی بیماری کی خبر کہیں نہ چھپائی گئی۔ پورے ملک کو معلوم تھا کہ و ہ بیمار پڑا ہے لیکن کسی کا جی نہ چاہا کہ شرافت و انسانیت کے اس پتلے کے خلاف کسی قسم کا کوئی ہنگامہ کرے ’’بہت سادہ لباس پہنتا جس میں پیوند لگے ہوتے۔ تمام ملک کے تعلیمی اداوں کے اخراجات شاہی خزانے سے ادا ہوتے۔ اس نے بادشاہ بنتے ہی ہر قسم کی بیگار‘ غلہ کی آمدورفت‘ بیلوں کی خریدوفروخت‘ نقل و حمل دکانوں‘ مکانوں‘ سڑکوں اور راہوں کے ٹول اور ٹیکس ختم کر دیے۔
عوام سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کے ٹیکس معاف کیے جن کی رقم ڈیڑھ کروڑ تک تھی۔اس نے چھ لاکھ فرامین جاری کیے اور سب اپنے ہاتھ سے لکھے۔ اس نے پہلی دفعہ ہندوستان میں یہ تصور دیا کہ بیت المال امانت ہے اور ٹوپیاں سی کر اور قرآن لکھ کر رزق کمایا۔ برصغیر پاک وہند کے یہ دونوں کردار آج بھی زندہ ہیں لیکن ہماری سوچوں میں۔ آج بھی فطرت‘ فلسفہ اور بلاشریعت تصوف کے قائل سیکولرازم کے پروانے موجود ہیں اور اورنگ زیب عالمگیر کی حریت فکر کے نمایندہ بھی ایک ایسے حکمران کے نمایندے جو برصغیر میں دو قومی نظریے کا بانی تھا۔ یہ دونوں متحارب ہیں‘ دونوں مقابل ہیں۔ اکبر کو تو صرف 19ماننے والے ملے تھے لیکن موجودہ دور میں ان کی کثرت ہے‘ وجہ صرف ایک ہے کہ فکری سطح پر مجدد الف ثانی کے ورثاء اپنا کام بھول چکے۔ اقبال جب مجدد الف ثانی کے مزار پر حاضر ہوئے تو فرماتے ہیں کہ وہاں سے یہ صدا آئی
آئی یہ صدا سلسلہ فقر ہوا بند
ہیں اہل نظر کشور پنجاب سے بیزار
عارف کا ٹھکانہ نہیں وہ خطہ کہ جس میں
پیدا کلہ فقر سے ہو طرہ دستار
دونوں جانب محاذ آرائی ہے۔ ملت اسلامیہ کی جانب سے لوگ محاذ پر تو کھڑے ہیں لیکن فکر کی سطح پر سیکولر ازم کی یلغار کا سامنا کرنے والوں میں مجدد الف ثانی دور دور تک نظر نہیں آتا۔