غیر ملکی یونیورسٹیوں سے بارُعب ڈگریاں لے کر ’’کنسلٹنسی‘‘ کے دھندے سے خوش حال زندگی بسر کرنے والے کئی ماہرینِ معیشت ہم عامیوں کو بہت رعونت سے یہ بتاتے ہیں کہ آئی ایم ایف تو محض ایک خاص نوعیت کا بینک ہے۔کسی ملک کی معیشت خسارے سے دو چار ہو۔ اپنے معاملات سنبھال نہ پائے تو اس سے رجوع کرتا ہے۔ آئی ایم ایف والے خالصتاََ معاشی اصولوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس ملک کو ہدایات نما مشورے دیتے ہیں۔ ان مشوروں پر خلوص نیت سے عمل کیا جائے تو چند مہینوں کے کڑے وقت سے گزرنے کے بعد آئی ایم ایف کے پروگرام میں آئے ملک میں ’’استحکام‘‘ آجاتا ہے۔ بازاروںمیں رونق لوٹ آتی ہے۔ خوش حالی کی جانب سفر شروع ہوجاتا ہے۔
فقط ’’معاشی اصولوں‘‘ کو خطِ کشیدہ کے ذریعے اجاگر کرتے ہوئے ہم عامیوں کو یہ بھی یاد دلایا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کو اس سے رجوع کرنے والے ملک کی ’’اندرونی سیاست‘‘ میں مداخلت کی عادت نہیں۔وہ اس ملک کے دوسرے ممالک سے تعلقات کے بارے میں بھی لاتعلق ہے۔
بارُعب ڈگریوںکے حامل عالم درست کہتے ہوں گے۔ مجھ جیسے جاہل کو مگر اعتبار نہیں آتا۔ ماضی کی کئی باتیں یاد آجاتی ہیں۔ان کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں۔ فی الحال یہ کہہ دینا ہی کافی ہے کہ اخباری اطلاعات کے مطابق پیر 29 اپریل کے دن سے آئی ایم ایف کا ایک وفد پاکستان میں موجود ہوگا۔ اس وفد کے ساتھ ایک بیل آئوٹ پیکیج کی تفصیلات طے ہوں گی۔ اس کی بدولت آئندہ مالی سال کا بجٹ تیار کرنے میں ہماری حکومت کو اُمید ہے مناسب اسپیس فراہم ہوجائے گی۔
حسنِ اتفاق مگر یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف کے وفد کی پاکستان میں موجودگی کے دوران ہی دو اعلیٰ سطحی امریکی عہدے دار بھی پاکستان میں موجود ہوں گے۔ میرا وسوسے بھرا دل یہ سوچنے کو مجبور ہے کہ آئی ایم ایف سے پاکستان کو ایک اور بیل آئوٹ پیکیج دیتے ہوئے جوہدایت نما مشورے ملیں گے ان کے ’’نرم‘‘ یا ’’سخت‘‘ ہونے کا انحصار ’’تعاون‘‘ کی اس سطح سے جڑا ہوگا جو امریکی حکام اپنے دورئہ پاکستان کے دوران حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
ہمارے میڈیا کی توجہ مگر اس پہلو کی جانب مبذول نہیں۔ سیاستدانوں کو کئی دن ہم نے ’’زبان بگڑی-دہن بگڑا‘‘ والے لیکچر دینے میں خرچ کئے ہیں۔ انہیں عورتوں کا احترام کرنا سکھا رہے ہیں۔ نواز شریف نے سپریم کورٹ سے لندن میں علاج کے لئے باقاعدہ استدعا کردی ہے۔ اس کے تناظر میں ’’ڈیل یا ڈھیل‘‘ کے سوالات دوبارہ اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
دریں اثناء ہمیں اتفاق سے یہ بھی یاد آگیا کہ دوردراز اور پسماندہ علاقوں میں نہیں بلکہ آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے سات لاکھ بچوں کے والدین نے پولیو کے قطرے پلانے والے رضا کاروں سے تعاون کو انکار کردیا۔ پورے ملک میں دل دہلا دینے والی حد تک ایک ریکارڈ تعداد نے ایسا انکار کیا۔چند علاقوں میں قطرے پلانے والے رضا کاروں پرپُرتشدد حملے ہوئے۔ان کی وجہ سے پھیلے خوف نے حکومت کو مجبور کردیا کہ سرکاری طورپر ’’پانچ دنوں‘‘ تک جاری رکھی مہم کے دوران جو قطرے پلائے گئے ہیں ان کے امپیکٹ اینالائیسز سے جندچھڑالی جائے۔
ہمیں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ ٹرمپ کا افغانستان سے امریکی فوجوں کی ’’باعزت‘‘ اور ’’پرامن‘‘ واپسی کو یقینی بنانے کے لئے تعینات ہوا زلمے خلیل زاد ایک بارپھر اسلام آباد آرہا ہے۔ اسلام آباد آنے سے قبل زلمے خلیل زاد نے روس اور چین سے گفتگو کے ذریعے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کروایا ہے۔ امریکہ،روس اور چین نے بے تحاشہ معاملات کے ضمن میں اپنے باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کم از کم افغانستان کے ضمن میں خود کو نام نہاد ون پیج پر متحدہ ہوا دکھایا ہے۔ ان تینوں ممالک نے جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے اس کا ایک ایک لفظ غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔
وہ جسے امیڈئیٹ کونٹیکٹس کہا جاتا ہے اسے ذہن میں رکھیں تو پاکستان کے لئے روس،چین اور امریکہ کی جانب سے جاری ہوئے مشترکہ اعلامیے میں خیر کی خبر یہ ہے کہ اس کے ذریعے بھارت کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ افغانستان کا ’’ماما‘‘ بننے کی کوشش نہ کرے۔ وہ اس مسئلے کا سٹیک ہولڈر نہیں۔ اشرف غنی حکومت کو بھی ایک اہم ’’فریق‘‘ کی حیثیت نہیں دی گئی۔طالبان کو بلکہ پیغام یہ دیا گیا ہے کہ وہ ’’افغان حکومت سمیت‘‘ اس ملک کی تمام سیاسی قوتوں اور مختلف النوع گروہوں سے بات چیت کر کے کوئی ایسا حل ڈھونڈے جو سب کے لئے قابل قبول ہو۔ اس حقیقت کو یقینا تسلیم کیا گیا ہے کہ ’’تشدد‘‘ پرامن حل کی تلاش میں بھاری رکاوٹ ہے۔طالبان سے مگر یہ اصرار نہیں ہوا کہ وہ فوری جنگ بندی پر آمادہ ہوجائیں۔
طالبان کو ایک حوالے سے اشرف غنی حکومت سے زیادہ اہم فریق اس ’’توقع‘‘ کے اظہار کے ساتھ بلکہ تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ ’’القاعدہ‘‘ سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے۔ اس امر کو بھی یقینی بنائیں گے کہ ’’داعش‘‘ جیسی تنظیمیں امریکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں اپنے مراکز قائم نہ کر پائیں۔داعش کے علاوہ ’’ایسٹرن ترکستان‘‘ کے نام سے منسوب ایک اور تنظیم کا بھی باقاعدہ ذکر ہوا۔ یہ تنظیم روس کو تاجکستان اور ازبکستان کے حوالے سے پریشان رکھتی ہے۔ چین بھی اس کے وجود سے نالاں ہے۔
میرا سوال مگر یہ ہے کہ طالبان کی واضح دلجوئی کے بعد پاکستان سے بند کمروں میں اب کیا تقاضے ہوں گے۔ بھارت کو افغانستان کے معاملات سے لاتعلقی کو یقینی بنانے کے لئے اس ملک کی دلجوئی کے لئے کیا دیاجائے گا۔اپنے ذہن میں آئے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کے لئے سمجھ نہیں آرہی کہ پنجابی محاورے والے’’کس کی ماں کو ماسی کہوں‘‘۔
یہ حقیقت بھی نظرانداز کرنا بہت مشکل ہورہا ہے کہ حال ہی میں پاکستان کے وزیر اعظم ہمارے دوست ملک چین میں بیلٹ اینڈ روڈ فورم کے جس اجلاس میں شریک ہوئے وہاں 39 دیگر ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم بھی موجود تھے۔ ورلڈ بینک کے اعلیٰ سطحی نمائندے بھی اس اجلاس میں شریک ہوئے۔ آئی ایم ایف کی سربراہ نے اس فورم سے خطا ب کیا۔ ہمارے وزیر اعظم سے اس کی ملاقات بھی ہوئی۔ امریکہ نے مگر اعلانیہ انداز میں اس فورم کا بائیکاٹ کیا۔ بھارت چین کا ہمسایہ اور اہم تجارتی فریق ہوتے ہوئے بھی اس فورم سے دور رہا۔
پاکستان سے ایک اور بیل آئوٹ پیکیج کے لئے مذاکرات کرتے ہوئے آئی ایم ایف مذکورہ بالاحقائق کونظرانداز نہیں کرسکتا۔ میرے ذہن میں آئے انگریزی زبان والے ڈاٹس کو جوڑ کر کوئی بڑی تصویر مجھے کو ن دکھائے گا؟