لاہور (ویب ڈیسک) بلاول بھٹو زرداری کے تقریر نویس کی غالباً آج کل پوری کوشش ہے کہ ایسے لفظوں کا زہر ڈال دے کہ پورا مُلک سی سی کرنے لگے۔شاید یہ جملہ بھی اسی خیال سے اُن کی تقریر میں ڈالا گیا کہ حکومت ہوش کے ناخن لے، ملک ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے؟ نامور کالم نگار نسیم شاہد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ لوگ تو اِس جملے کو اِس تناظر میں لے رہے ہیں کہ بلاول نے یہ بات اپنے خاندان کے لئے کہی ہے اور مُلک اب اُس کے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔جب سے جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آئی ہے، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے مورچہ سنبھال لیا ہے،جیسے حملے سے پہلے مچان پر آ بیٹھتے ہیں، اُسی طرح یہ دونوں بھی اگلے مورچے پر آ گئے ہیں۔ بطور سیاست دان ایسا کرنا ان کا حق ہے، مگر زیبِ داستان کے لئے پاکستان کی سلامتی کو ہی نشانہ بنانا بالکل غیر مناسب بات ہے۔اصولاً تو یہ لڑائی عدالتوں میں لڑی جانی چاہئے،کیونکہ یہ معاملہ عدالتی اور قانونی ہے،جسے خواہ مخواہ سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے۔ حکومت نے172 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈال دیئے ہیں اور ایسا کرنا قانونی مجبوری تھی،کیونکہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں اس کی سفارش کی تھی۔اب یہ اتفاق ہے کہ اس میں آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے ساتھ بلاول بھٹو زرداری کا نام بھی آ گیا ہے۔ظاہر ہے اس کے پیچھے بہت سے ثبوت ہیں، الزامات غلط ہیں تو انہیں عدالت میں ثابت کیا جا سکتا ہے۔چوٹی کے وکیل اُن کے پاس ہیں، مگر صرف اِس بات کو بنیاد بنا کر یہ تاثر دینا کہ ایسے اقدامات سے مُلک ٹوٹ جائے گا،یہ بہت گھسا پٹا بیانیہ ہے۔اب اس سے کوئی متاثر ہونے کو تیار نہیں۔جے آئی ٹی کو تو شاباش ملنی چاہئے کہ اُس نے سب کچھ کھنگال کر بیسیوں کرداروں کی نشاندہی کر دی ہے، جو منی لانڈرنگ کے کھیل میں شریک تھے اور جنہوں نے سندھ کے عوام پر خرچ ہونے والے سرمائے کو لوٹا اور بیرون مُلک منتقل کر دیا۔ سیاست دان کی جب زبان لڑ کھڑانے لگے، یا وہ ایسے لفظوں کا استعمال کرے جو اُس کے شایانِ شان نہ ہوں تو شک پڑتا ہے کہ اُس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔عوام کی تو ابھی تک یہ حیرانی بھی نہیں گئی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی برسی کے موقع پر دونوں باپ بیٹا شہید رانی کو بھول گئے۔اُن کا ذکر تک نہ کیا۔جمہوریت کے لئے اُن کی قربانیوں کا ذکر تو ہونا چاہئے تھا۔چلیں مان لیتے ہیں کہ بلاول بھٹو کی تقریر لکھنے والے کو جذبات میں آ کر یاد نہ رہا،لیکن آصف علی زرداری تو فی البدیہہ تقریر کر رہے تھے۔ وہ کم از کم آغاز ہی میں اس کا ذکر کرتے کہ آج ہم عظیم لیڈر اور شہیدِ جمہوریت بی بی بے نظیر بھٹو کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ انہوں نے تو ٹھیکیداروں اور بکواس کرنے والوں پر سارا غصہ نکالا، دھمکیاں دیں اور لڑنے مرنے کی باتیں کیں۔ اب جس لیڈر کو اتنا بھی معلوم نہ ہو کہ ایک ریاست میں اس طرح سرعام دھمکیاں دے کر عدالتوں اور قانون کو بے اثر نہیں کیا جا سکتا، اُسے لیڈر کیسے مانا جائے؟ کیا گڑھی خدا بخش میں جو تقاریر ہوئیں وہ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر پانی پھیر سکتی ہیں،کیا منی لانڈرنگ کیس اِن دھمکی آمیز تقریروں کی وجہ سے بند کیا جا سکتا ہے، کیا ریاستی ادارے اتنے کمزور ہیں کہ کوئی لیڈر مجمعے میں کھڑا ہو کر اُنہیں للکارے اور وہ اس کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ جائیں؟آصف علی زرداری کا یہ کہنا کہ صرف ہم ان سے نمٹ سکتے ہیں، کوئی دوسری جماعت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی، کیا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نوازشریف نے ریاستی اداروں سے بہت لڑائی کی، مگر شکست کھا گئے، اب ہم لڑیں گے اور جیت کر دکھائیں گے۔ وہ کس جیت کی بات کر رہے ہیں؟ ایسی جیت کی تو نہیں، جس میں ریاست شکست کھا جاتی ہے اور مافیاز فتح یاب رہتے ہیں؟ کیا اس صورت میں ریاست اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے؟ ہاں اگر آصف زرداری یہ کہتے کہ سب الزام جھوٹے ہیں، ہم عدالتوں میں اپنا دفاع کریں گے اور ثابت کر کے دکھائیں گے کہ ایک سازش اور سیاسی انتقام کے تحت ان پر کیسز بنائے جا رہے ہیں تو ان کی بات میں وزن بھی ہوتا اور ان کا سیاسی قد بھی بڑھ جاتا۔ اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا دفاع اس طرح کرنا کہ مُلک ہاتھ سے نکل جائے گا یا ملک کے ٹھیکیداروں کو سبق سکھا دیں گے، ایک ایسا بیانیہ ہے، جس میں اب کوئی جان نہیں رہی،یہ کام نوازشریف نے بھی کر کے دیکھ لیا اور اب آصف علی زرداری یہ کر رہے ہیں، شاید وہ ابھی تک دو دہائی پہلے کی فضا میں زندہ ہیں، جب ہر کرشمہ ہو جاتا تھا راتوں رات کیسز بھی ختم ہو جاتے تھے اور اقتدار میں واپسی بھی ہو جاتی تھی۔ حیرت و استعجاب تو اس لئے بھی جنم لیتا ہے کہ نوازشریف کے خلاف بننے والی جے آئی ٹی کی مکمل سپورٹ کرنے والی پیپلزپارٹی اب اسی سپریم کورٹ کی ہدایت پر قائم کی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ کو ماننے سے انکاری ہے۔۔۔اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ رپورٹ جھوٹی اور من گھڑت ہے تو اس کا فیصلہ جلسوں میں تو نہیں ہو سکتا، اس کے لئے تو سپریم کورٹ کے دروازے کھلے ہیں۔ یہ رپورٹ آصف علی زرداری کے وکلاء کو بھی مل گئی ہے اور انہوں نے دو روز بعد سپریم کورٹ میں اس کا جواب دینا ہے۔ ایسا تو نہیں ہے کہ اِدھر یہ رپورٹ آئی اور اُدھر گرفتاریاں شروع ہو گئیں۔ اگر ایسے شواہد موجود ہیں کہ آصف علی زرداری، فریال تالپور اور بلاول بھٹو زرداری کا منی لانڈرنگ کیس سے کوئی لینا دینا نہیں تو پھر کیسے انہیں ملوث کیا جا سکتا ہے؟ اندھیر نگری چوپٹ راج کا سماں اب تو باقی نہیں،یہ تو اس وقت تھا جب قوم کے اربوں روپے لوٹ کر باہر بھجوائے جا رہے تھے۔ آصف علی زرداری جیالوں سے مدد مانگ رہے ہیں، انہیں نہ گھبرانے کے مشورے دے رہے ہیں، حالانکہ ان جیالوں نے تو کبھی اچھے دن دیکھے ہی نہیں۔ ایک عدالتی معاملے کو سیاسی رنگ دے کر کارکنوں کے جذبات ابھارنا سیاست کی اخلاقیات کے خلاف ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اچھا کیا کہ وضاحت کر دی اور جے آئی ٹی کی رپورٹ کے خلاف تحریک چلانے کے امکان کو رد کر دیا، مگر آصف علی زرداری تو اُسی طرف جا رہے ہیں۔اُن کے جلسے اس امر کی نشاندہی ہیں کہ وہ سندھ کارڈ استعمال کرنے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔وہ پنجاب یا دوسرے صوبوں میں کوئی بڑا جلسہ نہیں کر سکتے،کیونکہ سب دیکھ چکے ہیں کہ کرپشن پر عوام ساتھ دینے کو تیار نہیں۔ ایک عام آدمی کو بھی اتنا احساس ضرور ہے کہ پاکستان اب بدل گیا ہے۔سیاسی شعور کی بڑھتی ہوئی لہر اب عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مواقع بہت کم کر چکی ہے۔ میڈیا ہر روز ہر سیاست دان کے ماضی و حال کو اُس کی ویڈیوز کے ذریعے سامنے لاتا ہے۔ مُلک کی تمام تحقیقی ایجنسیوں پر مشتمل جے آئی ٹی کی رپورٹ کے حقائق عوام تک پہنچ رہے ہیں۔ مُلک کی سب سے بڑی عدالت انصاف بھی کر رہی ہے اور انصاف کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں کو نشانِ عبرت بھی بنا رہی ہے۔ ایسے میں دقیانوسی الزامات پر مبنی بیانیہ عوام کو کیسے مطمئن کر سکتا ہے؟ سیاسی انتقام کون لے رہا ہے، کیوں لے رہا ہے، اس کی وضاحت بھی تو ہونی چاہئے۔ ایک پروپیگنڈے کے ذریعے سندھ کے معصوم عوام کو یہ تاثر دینا جیسے اُن کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے،وہی گھسا پٹا فارمولا ہے۔جے آئی ٹی رپورٹ نے تو یہ بات بے نقاب کی ہے کہ طبقہۂ اشرافیہ نے اُن کے ساتھ کیسے کیسے ظلم کئے ہیں۔اندرون سندھ کی پسماندگی آج بھی ستر کی دہائی جیسی ہے، مگر دوسری طرف جے آئی ٹی رپورٹ بتاتی ہے کہ اربوں روپے عوام کے منصوبوں سے لوٹ کر غیر قانونی طریقے سے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے بیرون مُلک بھجوائے گئے۔ پاکستان ہاتھوں سے نکلا نہیں جا رہا، ہاتھوں میں واپس آ رہا ہے۔ کسی نے آصف علی زرداری سے انتقام لینا ہوتا تو انہیں سندھ کی حکومت ہی نہ لینے دیتا۔ منی لانڈرنگ کا یہ کیس تو2015ء سے چل رہا ہے۔ شواہد اتنے مضبوط تھے کہ آصف علی زرداری کے تمام تر اثرو رسوخ کے باوجود اسے نواز شریف دور میں بھی ختم نہ کرایا جا سکا۔ یہ معاملہ شاید اب بھی کچھوے کی طرح رینگ رہا ہوتا،اگر چیف جسٹس ثاقب نثار اس کا از خود نوٹس نہ لیتے۔ انہوں نے جے آئی ٹی بنا کر اس کا کھوج نکالنے کی عملی صورت نکالی اور ہوشربا حقائق سامنے آ گئے۔ ایک دیمک تھی،جو مُلک کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر رہی تھی، اس کا سراغ مل گیا ہے تو اب مُلک مضبوط ہو گا، مزید کمزور ہر گز نہیں