کراچی (ویب ڈیسک) 9 جولائی کی شب کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس میں قتل کی اس واردات کے چند گھنٹوں بعد ہی یہ بات سامنے آ گئی تھی کہ معاملہ کاروباری لین دین کا تھا۔ کیس کا مرکزی ملزم مقتول مرید عباس کا بزنس پارٹنر عاطف زمان ہے۔عاطف کا تعلق ضلع مانسہرہ سے ہے۔نامور خاتون صحافی رفعت سعید ڈوئچے عیلے کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ والدہ کے انتقال کے بعد والد نے دوسری شادی کر لی، جس کے بعد اسے گھر چھوڑنا پڑا۔ اسے شروع سے ہی پیسے کا بہت شوق تھا۔ وہ کراچی آ گیا اور ایک ٹائر کمپنی میں ملازمت کر لی، جہاں اس کا کام صارفین سے ریکوری کرنا تھا۔ ایک ساتھ بہت سارا پیسہ دیکھا تو نیت خراب ہونے لگی۔ آخر اس پر لاکھوں روپے ہضم کر جانے کا الزام لگا اور نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ اس نے دوستوں سے ادھار لے کر جان چھڑائی۔چھوٹے فراڈ بڑے فراڈ میں بدلنے لگے۔ مارچ دو ہزار تیرہ میں عاطف نے اسمگل شدہ ٹائر کے کاروبار کے لیے ایک دوست کو پانچ لاکھ روپے کی سرمایہ کاری پر راضی کر لیا۔ اگلے ہی مہینے عاطف نے دوست کو پچاس ہزار روپے منافع دیا تو دوست کے بھائی نے کاروبار میں مزید بیس لاکھ کی سرمایہ کاری کر دی۔نیوز اینکر مرید عباس سے عاطف کی ملاقات دو ہزار پندرہ میں ایک محفل میں ہوئی اور وہ بھی اس کام میں پیسہ لگانے کے لیے راضی ہو گیا۔ اس کا خیال تھا کہ تنخوا کم ہے اور نوکری کا تخفظ بھی نہیں لہذا کچھ پیسے کاروبار میں لگا لے تو برے وقت میں کام آئیں گے۔ ابتدائی طور پر مرید نے دس ہزار روپے لگائے مگر ہر ماہ کا منافع اتنا تھا کہ وہ کچھ پیسے لے کر بقیہ رقم واپس اسی کاروبار میں لگاتا گیا۔دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں کا کام لاکھوں میں میں چلا گیا۔ اس عرصے میں مرید نے میڈیا سے منسلک اپنے دوسرے ساتھیوں اور نیوز اینکرز کو بھی اس دھندے میں سرمایہ کاری کروائی۔ کسی نے پانچ لاکھ لگائے تو کسی نے دس لاکھ۔ کام کی نوعیت ایسی تھی کہ نہ کوئی رسید نہ کوئی لکھت پڑھت، سارا کام زبانی کلامی تھا۔ اس کاروبار میں کئی لوگوں نے پیسہ ڈالا، کمایا اور کچھ نے ملکیتیں بھی بنائیں۔پولیس کے مطابق مجموعی طور پر ایک سو سے زائد لوگوں نے سرمایہ کاری کی، جن میں چار نیوز چینلز کے چالیس کے قریب افراد کی سرمایہ کاری سامنے آ چکی ہے۔عاطف نے مرید اور خضر حیات کو قتل کرنے کے بعد خود کو بھی گولی مار کر ہلاک کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ گیا۔ہسپتال میں دیے گئے اعترافی بیان کے مطابق عاطف کے ذمے لوگوں کے کروڑوں روپے تھے، جس میں میڈیا ورکرز کے علاوہ سابق سرکاری ملازمین اور بینکرز بھی شامل ہیں۔ عاطف نے اس پیسے سے زمین، جائیدادیں اور مہنگی گاڑیاں خرید لی تھیں۔ اس کی ہر خواہش پوری ہو گئی تھی لیکن پھر پی ٹی آئی حکومت نے ایمنسٹی اسکیم لانے کا اعلان کر دیا۔ لوگوں نے عاطف سے رقوم کی واپسی کے مطالبات شروع کر دیے۔ یہ سب اس کے لیے غیر متوقع تھا۔ وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو گیا اور بات اقدام قتل تک جا پہنچی۔ اس کیس کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ایس ایس پی طارق دھاریجو نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ’’ملزم عاطف نے ابتدائی بیان میں کہا کہ کاروبار میں نقصان کے باعث اس نے منافع دینا بند کیا۔ دراصل کوئی کاروبار تھا ہی نہیں، ایک کا پیسہ منافع کے طور پر چند ماہ دوسرے کو دیا گیا اور جیسے ہی نیا سرمایہ کار آیا، اس کے پیسے سے پرانے لوگوں کو منافع کی رقم دی گئی لیکن بلاآخر سرمایہ کار آنا بند ہو گئے تو عاطف مشکل میں پھنس گیا۔‘‘پولیس کے سامنے اب تک جو حقائق آئے ہیں، ان کے مطابق یہ معاملہ تیس سے چالیس کروڑ کی جعلسازی کا نظر آتا ہے لیکن ممکن ہے کہ اس فراڈ سے متاثرہ دیگر لوگ ابھی سامنے آنے سے گریزاں ہوں۔ لیکن فی الحال پولیس اس کیس میں جعلسازی نہیں بلکہ دوہرے قتل کی تفتیش کر رہی ہے۔مبصرین کے مطابق دیکھنے میں تو یہ دھوکا دہی اور مالیاتی فراڈ کا کیس ہے لیکن اس کے سب سے زیادہ شکار میڈیا کے لوگ بنے، جس کی اہم وجہ میڈیا انڈسٹری کا بحران، تنخواہوں کی عدم ادائیگیاں اور ملازمت میں عدم تحفظ ہے۔(ش س م) (بشکریہ : ڈوئچے ویلے )