بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی، چچا چھکن نے تصویر ٹانگی۔ کہانی کچھ ایسے ڈھب سےلکھی گئی تھی کہ پڑھنےوالے کے ذہن میں فلم چلتی جاتی تھی اور وہ فلم آج بھی ذہن میں ایسی نقش ہے کہ اگرآج بھی ہم کسی بھی نکمے یا تیس مار خان کےہاتھوں کوئی کام خراب ہوتے دیکھتے ہیں تو فورا کہہ اٹھتے ہیں جس کا کام اس کو ساجھے۔
ایک عام مقولہ یہ بھی ہے کہ ایک چپ سو سکھ۔ یعنی خاموشی ہزار نعمت ہے۔ بندہ جب تک خاموش رہتا ہے اپنی عزت سنبھالے رکھتا ہے۔ جہاں انسان نے بیان بازیاں شروع کیں وہاں عوام اور میڈیا نے اس کے بیان پر اپنی دکان لگالی۔ میڈیا ابھی بیان کی چٹنی گھوٹ ہی رہا ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر بیان دینےوالے شخص پر لعن طعن شروع ہو جاتی ہے اور پھر ٹرولنگ کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ چل پڑتا ہے۔
آج کے دور میں منہ سے لفظ نکلتے ہی فیس بک کی نیوزفیڈ اورمیڈیا کی ہیڈلائن میں آجاتا ہے۔ کیمرے اور مائیک کا چسکہ تو ایسا ہے کہ ایک بار پڑجائےتو کبھی نہیں جاتا۔ اسی طرح ٹِکرز اور ہیڈلائنز میں نظر آنے کا نشہ بھی کسی خطرناک نشے سے کم نہیں۔ باعزت ادارے کےمعزز سربراہ کو بھی شاید اسی چیز کا چسکا پڑ گیا تھا، پہلی بار جب صاحب سکرین پر آئے میڈیا نے خوب دکھایا اور بیان کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ جناب نے جب ہر چینل کے رات نو بجے والے بلیٹن میں خود کوہیرو پایا تو اگلے روز ہی اسپتالوں کےدورے شروع کر دئیے۔ مفت ادویات،اسپتالوں کی حالت زار اور میڈیکل کالجز کے پیچھےایسے پڑے کہ اپنے ہزاروں زیرالتواء کیسز کو بھول گئے۔
عوام نے پھرتیاں دیکھ کر سوال اٹھائے کہ جناب اپنےادارے کوبھی دیکھیں تو صاحب نے عدم سہولیات کا رونا رو دیا۔ اب تو حد ہی ہوگئی صاحب بیان کو وائرل کرنےکیلئے خاتون کے سکرٹ کوبھی نہ چھوڑا۔
پاکستان میں کوئی ترقیاتی منصوبہ ہو یا کوئی بڑا سانحہ سیاسی جماعتیں اپنا کریڈٹ لینے کیلئےتقریروں کے انبارلگا دیتی ہیں اور فوج کے حمایتی سارے کا سارا کریڈٹ خاکی وردی کو دلوانے کیلئےٹاک شوز میں بیٹھے نظر آتےہیں۔ حکومت اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کی اس دوڑ میں چوتھے رکن عدلیہ کا اضافہ ہوگیا ہے۔ چند روز پہلے جسٹس شوکت عزیزکے آرمی چیف کےخلاف دئیے گئے ریمارکس پر کچھ لوگ بڑے خوش اور کچھ بڑے حیران نظر آرہے ہیں۔ خود جسٹس شوکت عزیز صاحب نے بھی کہا کہ اب میں مسنگ پرسن میں ملوں گا۔
پاکستان کی عدلیہ کویہ بات سمجھنی ہوگی کہ ملک پر حکومت کرنا ان کا کام نہیں۔ انہیں انتظامی اور سیاسی معاملات سے جتنا ہوسکے دور رہنا ہوگا۔ بیان بازیاں اور میڈیا پر اِن رہنے کا کام سیاست دانوں کا ہے، عوام کو انصاف پہنچانے والوں کا نہیں۔ سیاست دان اپنے بیان بازی کے بل پر نہ صرف مخالفین کو زچ کرتے ہیں بلکہ اپنےبھولے بھالے ووٹرکو بھی رام کرلیتے ہیں۔ انصاف فراہم کرنے والوں کو اگر کسی کو رام کرنا ہے تو اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے فوری انصاف۔