اسلام آباد (نیوز ڈیسک) نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے تجزیہ کار جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ ایک مثال ہے کہ اگر کوئی حکومت یا ادارہ اپنے ملازمین سے پیسے لینا شروع کر دے اور کہے کہ ہم آپ کو دو سال کے بعد گھر بنا کر دیں گے، پھر جب آپ پیسے لیتے رہیں اور گھر بھی بنا کر نہ دیں تو پھر آپ کو پیسے تو واپس دینے چاہئیں ۔انہوں نے کہا کہ در اصل ہوا یہ ہے کہ حکومت نے جب گیس کا انفراسٹرکچر بنانا شروع کرنا تھا تو حکومت نے پہلے سے یہ پیسہ اکٹھا کرنا شروع کر دیا لیکن انفرا اسٹرکچر نہیں بنا۔ جب تک حکومت کو اندازہ ہوا کہ یہ انفرا اسٹرکچر نہیں بن سکتا تو اُس وقت تک حکومت اُن سے پانچ سو ارب روپیہ وصول کر چکی تھی۔ ن لیگ کی حکومت میں جب بجٹ میں خسارہ آیا تو یہ پیسہ اُدھر ڈال کر ہضم کر گئے۔کمپنیوں نے مزید پیسہ دینا بند کر دیا اور کہا کہ آپ ہم سے پیسے وصول کر رہے ہیں لیکن انفرا اسٹرکچر نہیں بنا رہے۔ انہوں نے کورٹ سے اسٹے آرڈر لے لیا۔ اب جب آپ کے پاس اُس پیسے کو رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے تو عدالت سے یہ اشارہ تھا کہ آپ کے خلاف فیصلہ آئے گا اورجو پیسہ حکومت کھا چکی ہے وہ واپس کرنا ہو گا اسی لیے عدالت کے باہر ایک سیٹلمنٹ کی گئی جس میں کہا گیا تھا جو حکومت کھا گئی وہ تو گیا ، جو آپ نے دینا تھا وہ آپ نہ دیں۔اس طرح اس معاملے میں حکومت اپنی چار سے ساڑھے چار سو ارب کی بچت کر گئی ہے۔ یاد رہے کہ حال ہی میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے با اثر ترین صنعتکاروں ، کھاد ، فیکٹریوں ، سی این جی اسٹیشنز اور پاور پلانٹس کے مالکان کو غریب عوام سے وصول کیے جانے والے 208 ارب روپے معاف کر دئے گئے تھے۔ یہ رقم مختلف کمپنیوں اور صنعتکاروں نے گیس انفرا اسٹرکچر ڈیویلپمنٹ سرچارج کی مد میں غریب کسانوں اور عوام سے 5 سال کے منصوبے کے دوران وصول کی تھی۔ یہ رقم قومی خزانے میں جمع ہونا تھی جس کے ذریعے پاکستان ایران گیس پائپ لائن، ٹاپی منصوبہ اور توانائی کے دیگر منصوبے مکمل ہونا تھے۔