counter easy hit

طالبان کی واپسی سے افغان خواتین پریشان کیوں ہیں ؟ حیران کن وجوہات سامنے آگئیں

Why are Afghan women upset by the Taliban's withdrawal? Strange reasons have come to light

کابل( ویب ڈیسک) افغانستان میں امن کی بحالی کے حوالے سے طالبان اور امریکہ کے درمیان ممکنہ امن معاہدے سے جہاں افغان شہریوں کی اکثریت خوش دکھائی دیتی ہے، وہاں افغان خواتین کی ایک بڑی تعداد طالبان کی ممکنہ واپسی سے پریشان ہونے لگی ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان خواتین کہتی ہیں کہ وہ واپس پیچھے طالبان دور میں نہیں جانا چاہتیں۔طالبان دور کے خاتمے کے 18 برس بعد جو جو امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں مذاکرات آگے بڑھ رہے ہیں افغان خواتین میں پائی جانے والی اس تشویش میں بھی اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔افغان خواتین کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کے نتیجے میں طالبان کی واپسی سے کہی ان کی آزادی سلب نہ ہو جائے۔خواتین اس خدشے کا ظہار کر رہیں ہیں کہ اگر امن معاہدے کے تحت طالبان کی شرائط مانی گئیں تو ان کی آزادی ایک بار پھر چھین لی جائے گی۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اکثر افغان خواتین کہتی ہیں کہ وہ کسی بھی قیمت پر اپنے بنیادی حقوق سے پیچھے ہٹنا نہیں چاہتیں۔افغان خواتین کے مطابق طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد انہیں اپنے حقوق ملنا شروع ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اب کوئی ایسا معاہدہ ہوتا ہے جو طالبان کو پھر اقتدار میں لے آئے تو وہ انہیں ان حقوق سے پھر محروم کردین گے۔افغان خواتین اور مردوں نے رواں برس مارچ میں سوشل میڈیا پر ’مائی ریڈ لائن‘ کے نام سے ایک ہیش ٹیگ شروع کیا جس کے تحت خواتین کو ان کے تمام حقوق دینے کی بات کی گئی۔انگریزی میں ’مائی ریڈ لائن‘، پشتو میں ’زما سرہ کرشہ‘ اور دری میں ’خط سرخ من‘ سوشل میڈیا پر جاری وہ ہیش ٹیگ ہیں جن میں افغانستان سمیت دنیا بھر میں مقیم افغان خواتین اپنے پیغامات شیئر کر رہی ہیں۔کابل میں مقیم صحافی فرح ناز فروتن مائی ریڈ لائن نامی مہم کی روحِ رواں ہیں۔ بی بی سی بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امن معاہدہ اگر خواتین کی آزادی کی قیمت پر ہوا تو یہ ہر گز قابل قبول نہیں ہو گا۔قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین بھی اس مہم سے لاعلم نہیں۔انھوں نے الزام لگایا کہ یہ ہیش ٹیگ چلانے والی خواتین بیرون ملک مقیم ہیں اور وہ افغانستان کے حقیقی خواتین کی نمائندگی نہیں کر سکتیں۔ان کا کہنا تھا کہ وہ افغان خواتین کو وہ تمام حقوق دیں گے جن کی اسلام اور افغان معاشرے میں اجازت ہو گی۔دوسری جانب افغان طالبان نے توقع ظاہر کی ہے کہ قطر میں پیر کے دن ہونے والے امریکہ طالبان مذاکرات مثبت ہوں گے۔ مذاکرات میں ملا برادر کی عدم شرکت کے حوالے سے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ طالبان مذاکرت کاروں کی ٹیم مقرر کرنے سے لے کر امریکی نمائندوں سے بات چیت کی اجازت دینے کا کام ملا برادر نے انجام دے دیا ہے۔ذبیح اللہ مجاہد نے ذرائع ابلاغ کی اِن رپورٹس کو یکسر مسترد کیا ہے جن میں ان خدشات کا اظہار کیا گیا ہے کہ اندرونی اختلافات کے باعث ملا برادر پیر کے دن ہونے والے مذاکراتی عمل میں شریک نہیں ہوں گےقطر میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا برادر ہیں جن کا نام عبدالغنی آخوند ہے۔ افغان طالبان اورامریکہ کے درمیان ایک ماہ قبل ہونے والی ملاقات میں اس امر پر اتفاق رائے ہو گیا تھا کہ امریکی افواج کے انخلا کے متعلق فریقین کسی سمجھوتے پر رضامند ہوں گے اورطالبان اس بات کی ضمانت دیں گے کہ وہ کسی بھی شدت پسند گروپ کو افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے۔افغان طالبان اورامریکہ کے درمیان گزشتہ ملاقات میں ورکنگ گروپ تشکیل دینے پر اتفاق ہوا تھا۔ اس کا مقصد یہ طے کیا گیا تھا کہ آئندہ مذاکرات سے قبل ملاقات کے ایجنڈے کو حتمی شکل دے گا۔طالبان ترجمان کا اس ضمن میں مؤقف ہے کہ ملا برادرسیاسی امور پر معاون ہیں اور امریکی مذاکراتی ٹیم میں اُن کے درجے کا نمائندہ موجود نہیں ہے اس لیے اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ وہ اس ملاقات میں شرکت کریں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website