اسلام آباد(یس اردو نیوز) جب 10 اپریل 2019 کو دو پہر دو بجے کے بعد پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے اپنی ایک ٹویٹ میں اعلان کیا کہ انڈین بحریہ کے افسر اور ‘را’ کے مبینہ جاسوس کلبھوشن یادو کو آرمی ایکٹ کے تحت سزائے موت سنائی گئی ہے تو اس کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر پورے دن اسی خبر کے چرچے جاری رہے۔ کلبھوشن یادو کو انسداد دہشت گردی کی ایک کارروائی کے دوران بلوچستان کے علاقے ماشخیل سے پاکستان کے خلاف جاسوسی اور سبوتاژ کی کارروائیوں میں ملوث ہونے پرگرفتار کیا گیا تھا۔
ٹوئٹر پر جاری ٹرینڈز میں پاکستان کے پہلے دس ٹرینڈز میں سے دو ٹرینڈز کلبھوشن یادو کے بارے میں تھے جبکہ انڈیا سے بھی ایک بڑی تعداد میں لوگ اس فیصلے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے۔
دونوں ملکوں کے درمیان موجود سیاسی اور عسکری کشیدگی کا ماحول سوشل میڈیا پر بھی نظر آیا۔ محمد عادل نے پاکستان سے تمسخرانہ ٹویٹ کی کہ ‘اب انڈیا فینٹم ٹو فلم بنائے گا جس میں سیف پاکستان میں داخل ہو کر کلبھوشن کو بچائے گا’۔ ان کی ٹویٹ بالی ووڈ کی 2015 میں بنائی گئی فلم فینٹم کے حوالے سے تھی جس میں اداکار سیف علی خان نے ‘را’ کے ایک ایجنٹ کا کردار ادا کیا تھا جو پاکستان میں داخل ہو کر اپنا مشن پورا کرتا ہے۔
کلبھوشن یادیو معاملے پر عالمی عدالت انصاف میں تاریخی فتح کے باوجود پاکستان میں کلبھوشن یادیو کیس ہمیشہ کی طرح خبروں میں ہے۔ پاکستان کی سول عدالتوں کی طرح اب فوجی عدالت کا فیصلہ بھی مذاق بنتا جارہا ہے۔ آرمی عدالت کے فیصلے پر نظر ثانی کا آرڈیننس آیا۔ اس آرڈیننس کے بارے میں پارلیمنٹرینز نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ فوجی عدالتوں کے کیسز کیخلاف سول عدالتوں میں اپیل کی اجازت نہیں ہے مگر موجود حکومت ایک ایسا آرڈیننس لارہی ہے جس کے تحت فوجی عدالت کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کی جاسکے گی۔
سینیٹ میں اپوزیشن نے آرڈیننس کو بھارتی خفیہ ایجنسی ‘را’ کے گرفتار جاسوس کلبھوشن یادیو کے لیے ایک سہولت قرار دیتے ہوئے حکومت سے وضاحت کرنے کا مطالبہ کیا۔رضا ربانی کا کہنا تھا کہ رات کے اندھیرے میں ایک آرڈیننس جاری کیا گیا، بین الاقوامی عدالت انصاف نظر ثانی اور از سر نو غور سے متعلق آرڈینس 20 مئی کو جاری ہوا۔انہوں نے کہا کہ آرڈینس کے مطابق کوئی غیر ملکی شہری، یا مشن کا کوئی شخص فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی یا دوبارہ غور کی درخواست آرڈینس اجرا کے 60 دن کی اندر ہائی کورٹ میں دائر کر سکتا ہے۔
رضا ربانی نے کہا کہ جس کشمیریوں نے یوم شہدا منایا تھا اسی دن دفترخارجہ نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ واہگہ کے ذریعے کھولنے سے متعلق اعلان کیا۔ رضا ربانی نے چاہ بہار معاہدے سے متعلق پارلیمان کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ بھی کیا۔ واضح رہے کہ 8 جولائی کو ایڈیشنل اٹارنی جنرل احمد عرفان نے بتایا تھا کہ پاکستان میں گرفتار اور سزا یافتہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ‘را’ کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو نے اپنی سزا کے خلاف نظرِ ثانی کی اپیل دائر کرنے سے انکار کردیا ہے اور اس کے بجائے انہوں نے اپنی زیر التوا رحم کی اپیل پر جواب کے انتظار کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں جو کیس پاکستان نے جیتا تھا اس کے فیصلے کے اہم نکات میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ویانا کنونشن برائے قونصلر روابط کی دفعہ 36 کے تحت کلبھوشن یادیو کو ان کے حقوق کے بارے میں بتایا جائے۔ احمد عرفان نے بتایا تھا کہ فیصلے میں یہ نکتہ بھی شامل تھا کہ بھارتی قونصل کے افسران کو کلبھوشن یادیو سے بات چیت کرنے کی اجازت اور قونصلر رسائی دی جائے تا کہ وہ ان سے ملاقات کریں اور ان کے لیے قانونی نمائندگی کا بندوبست کریں۔ان کا کہنا تھا کہ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کلبھوشن کیس پر مؤثر نظر ثانی کے لیے تمام تر اقدامات اٹھائے جائیں جس میں اگر ضرورت پڑے تو قانون سازی کا نفاذ بھی شامل ہے اور جب تک مؤثر نظرِ ثانی اور دوبارہ غور مکمل نہ ہوجائے اس وقت تک پھانسی کی سزا کو روک دیا جائے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ حکومت پاکستان نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ حکومت پاکستان کے اہم اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آئی سی جے فیصلے کے فوراً بعد کلبھوشن یادیو کو ویانا کنویشن کی دفعہ 36 کے تحت قونصلر رسائی کے ان کے حق کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ پاکستان نے را کے ایجنٹ کمانڈرکلبھوشن یادیو کی سزا پر نظرِ ثانی اور دوبارہ غور تک کے لیے روک دیا اور نظرِ ثانی اور دوبارہ غور کے لیے پاکستان نے اپنے موجودہ قوانین کا جائزہ لیا تاکہ ویانا کنوینشن کے آرٹیکل 36 کے تحت مناسب طریقے سے نظرِ ثانی اور غور کیا جاسکے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حالانکہ پاکستان کا قانون نظرِ ثانی کا حق فراہم کرتا ہے لیکن عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر صحیح طور سے عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان نے 28 مئی کو ’انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ریویو اینڈ ری کنسیڈریشن آرڈینسس 2020‘ نافذ کیا۔ اس آرٹیننس کے تحت 60 روز میں ایک درخواست کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نظرِ ثانی اور دوبارہ غور کی اپیل دائر کی جاسکتی ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ آرڈیننس کے سیکشن 20 کے تحت کلبھوشن یادیو بذات خود، قانونی اختیار رکھنے والے نمائندے یا بھارتی ہائی کمیشن کے قونصلر اہلکار کے ذریعے نظرِ ثانی اپیل دائر کرسکتے ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 17 جون 2020 کو کلبھوشن یادیو کو ان کی سزا پر نظرِ ثانی اور دوبار غور کی اپیل دائر کرنے کی پیش کش کی گئی اور پاکستان نے را ایجنٹ کے لیے قانونی نمائندگی کا انتظام کرنے کی بھی پیش کش کی۔ انہوں نے بتایا کہ کلبھوشن یادیو نے اپنے قانونی حق کو استعمال کرتے ہوئے سزا پر نظرِ ثانی اور دوبارہ غور کے لیے اپیل دائر کرنے سے انکار کردیا اور اس کے بجائے زیر التوا رحم کی اپیل پر جواب کے انتظار کا انتخاب کیا۔ احمد عرفان کا کہنا تھا کہ پاکستان بارہا بھارتی ہائی کمیشن کو کلبھوشن یادیو کی سزا پر نظرثانی اور اس پر غور و فکر کا عمل شروع کرنے کی دعوت دے چکا ہے۔