کراچی( تجزیہ / مظہر عباس ) درحقیقت ایسی کیا بات ہوئی جو چیئرمین سینیٹ کے منصب کیلئے رضا ربانی کا نام پیپلز پارٹی کی جانب سے نہ دیئے جانے کے حیران کن فیصلے کا باعث بنی حالانکہ ایسے واضح اشارے تھے کہ پیپلز پارٹی سینیٹ چیئرمین کے لئے رضا ربانی کو نامزد کرتی تو تمام جماعتیں متفق ہو جاتیں۔ اکثریت ان کی حامی ہونے کے باوجود رضا ربانی کا نام ترک کر دیا گیا ، کیونکہ اس بارے میں پیپلز پارٹی کے فیصلہ ساز آصف علی زر داری کی اپنی ذاتی اور سیاسی وجوہ تھیں۔ وہ تو رضا ربانی کو سینیٹ نشست دینے پر بھی آمادہ نہ تھے۔
بلاول بھٹو زرداری کی مداخلت اور زور دینے پر انہیں ایوان بالا کی نشست ملی۔ آصف علی زرداری نے گزشتہ جنوری میں ذاتی بالمشافہ ملاقات کیلئے میاں رضا ربانی کی درخواست بھی مسترد کر دی جس سے انہیں اپنے انجام کے بارے میں پیغام مل گیا ہوگا۔ بتایا جاتا ہے کہ اعتزاز احسن، سید خورشید شاہ ، فرحت اللہ بابر، قمر الزماں کائرہ اور حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تک میاں رضا ربانی کی حمایت کی تھی لیکن مختلف وجوہ سے دو سابق وزرا اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف نے ان کی مخالفت کی، یہ سب کچھ 2015 ء میں ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری سے شروع ہوا جو زرداری کے بڑے قریبی دوست ہیں۔ ایک طرف تو زرداری نے نواز شریف سے اپنے تمام تر تعلقات توڑ لئے اور عاصم حسین کے ساتھ حکومت نے جو کچھ کیا ، اس حوالے سے بڑا سخت پیغام بھی دیا۔ وہ بھولے اور نہ ہی معاف کیا، اور پھر نواز۔ زرداری تعلقات کبھی بحال نہیں ہوئے بلکہ پیپلز پارٹی نے شریفوں کے خلاف زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کرلیا۔ آصف زرداری کا دوسرا پیغام اپنی پارٹی قیادت اور سابق وزیرا علیٰ سندھ قائم علی شاہ کیلئے تھا، جنہوں نے عاصم حسین کی ممکنہ گرفتاری کے بارے میں انہیں خبردار نہیں کیا تھا۔ قائم علی شاہ کو تو اپنی وزارت اعلیٰ سے ہاتھ دھونے پڑے ۔ ذرائع کے مطابق قائم علی شاہ یہ وضاحت دیتے تھک گئے کہ انٹلی جنس یا رینجرز نے آخر وقت تک انہیں آگاہ نہیں کیا۔ انہیں ہٹا کر پھر مراد علی شاہ کو لایا گیا ۔ آصف زرداری اس بات پر بھی خفا تھے کہ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری کی مذمت نہیں کی، صرف اعتزاز احسن نے دہشت گردی کا مقدمہ درج ہونے پر مذمتی بیان جاری کیا تھا لیکن انہوں نے بھی ڈاکٹر عاصم حسین کے کرپشن کیسز کا ایشو اٹھانے سے انکار کیا۔پارٹی کی اعلیٰ قیادت کا جب 2015 میں دبئی میں اجلاس ہوا ، وہاں زرادری نے عاصم حسین کے خلاف مقدمے اور اس سے نمٹنے میں ناقص حکمت عملی پر پارٹی کو ہدف تنقید بنایا۔ پیپلز پارٹی نے عاصم حسین کی حمایت میں کوئی مظاہرہ بھی نہیں کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تب آصف زرداری نے رضا ربانی کو عاصم حسین کا معاملہ سینیٹ میں اٹھانے کیلئے کہا جنہوں نے معاملہ سینیٹ استحقاق کمیٹی کے سپرد کردیا لیکن رضا ربانی اور دیگر دو سینیٹرز نے زرداری کو باور کرانے کی کوشش کی چونکہ عاصم حسین سینیٹ کے رکن نہیں ہیں لہٰذا معاملہ اٹھانا ممکن نہ ہوگا۔ تاہم ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ربانی نے زرداری کو مشورہ دیا اگر کوئی پارٹی سینیٹر معاملہ سینیٹ میں اٹھاتا ہے تو وہ کیس استحقاق کمیٹی کے سپرد کر سکتے ہیں۔ اس طرح ذرائع کے مطابق ربانی نے زرداری کا اعتماد کھو دیا اور پھر بحال نہ ہوا۔ جبکہ پارٹی کے کچھ مشیروں نے غلط فہمیوں اور بداعتمادی کو مزید ہوا دی۔ زرداری کو مبینہ طورپر بتایا گیا کہ رضا ربانی ان کے ساتھ ملنے سے کترا رہے ہیں اور اس دوران وہ دوبارہ نواز شریف سے مل چکے لیکن رضا ربانی کے قریبی ذرائع کسی بینہ ملاقات سے انکاری ہیں بلکہ یہاں تک کہا کہ دونوں میں ٹیلی فون پر تک بات چیت نہیں ہوئی۔ پیپلز پارٹی کے اندر رضا ربانی مخالف لابی حاوی آگئی۔ ان میں سے کچھ زرداری کے اس قدر قریب آگئے کہ رضا ربانی کے حق میں پارٹی کے ایک دیرینہ رہنما کے موقف کو بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا ، ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین سال کے دوران سابق چیئرمین سینیٹ نے مسلم لیگ (ن) حکومت کے خلاف جو پوزیشن لی، وہ ریکارڈ کا معاملہ ہے ۔ انہوں نے خواجہ محمد آصف سمیت ن لیگی وزرا کو معطل بھی کیا۔ زرداری اپنے ترجمان فرحت اللہ بابر اور رضا ربانی کے مخصوص معاملات پر موقف سے بھی خوش نہیں تھے۔ جس نے اکثر ان کے نئے بیانیہ کیلئے مسائل پیدا کئے لیکن یہ ڈاکٹر عاصم حسین کا معاملہ تھا جس نے درحقیقت چیئرمین سینیٹ کی حیثیت سے رضا ربانی کی دوسری مدت کو نگل لیا۔ زرداری ڈاکٹر عاصم کے معاملے میں نہایت حساس ہیں، اپنی پاکستان واپسی کے بعدآصف زرداری نے ڈاکٹر عاصم حسین کی جناح اسپتال منتقلی کو یقینی بنایا۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو ان کی نگہداشت کیلئے کہا، جب وہ جناح اسپتال جاکر ڈاکٹر عاصم حسین سے ملے تو انہوں نے اپنے سے پیپلز پارٹی کے خراب سلوک کی شکایت کی اور سینیٹ میں اپنا معاملہ نہ اٹھائے جانے پر احتجاج کیا ، گو کہ عاصم حسین پیپلز پارٹی کراچی کی صدارت کیلئے امیدوار نہیں تھے لیکن انہیں اچانک ہی کراچی میں پارٹی کی صدارت سونپ دی گئی۔ جس پر بلاول بھی حیران رہ گئے، بعدازاں زرداری نے سندھ میں پارٹی رہنمائوں کو ہدایات جاری کیں کہ ہر دوسرے روز کوئی نہ کوئی وزیر عاصم حسین کی عیادت کرے گا۔ اور عدالتوں میں دوران سماعت اپنی موجودگی کو یقینی بنائے گا۔ دوسری جانب سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان جس انداز میں عاصم حسین کو گرفتار کیا گیا ، اس سے خوش نہ تھے لیکن جب چوہدری نثار نے ڈاکٹر عاصم حسین کے وڈیو بیان کے اجرا سے خبردار کیا تو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے۔ 2015 کے بعد سے زرداری اور نواز شریف میں تعلقات پھر کبھی بحال نہیں ہوئے، اب زر داری اور ان کی پارٹی کو متبادل اتحادی کی تلاش ہے ۔ اپوزیشن کی کامیابی کے باوجود سینیٹ الیکشن کا حتمی نتیجہ کچھ سینئر پارٹی رہنمائوں کیلئے مایوس کن رہا جو رضا ربانی کا چیئرمین کی حیثیت سے دوبارہ انتخاب چاہتے تھے ۔ تحریک انصاف بھی ان کی مخالفت نہ کرتی لیکن زرداری کو ڈپٹی چیئرمین کے عہدے پر اکتفا کرنا پڑا، جہاں تک رضا ربانی کے سیاسی مستقبل کا تعلق ہے اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ بلاول کی موجودگی میں زرداری کس حد تک موثر رہتے ہیں، گزشتہ چند دنوں میں جو کچھ ہوا اس سے صاف ظاہر ہے کہ پیپلز پارٹی میں طاقت آصف زرداری کے پاس ہی ہے اور وہ اکثریتی رائے کو بھی ویٹوکر سکتے ہیں۔ میاں رضا ربانی کے معاملے میں یہی کچھ ہوا۔