لاہور (ویب ڈیسک) سانحہ ساہیوال پر حکومت کہہ رہی ہے کہ ڈرائیور ذیشان کا تعلق داعش سے ہے۔ ان صاحب نے توپوچھ لیا‘ مگر مجھے یہ سوال حیران کر جاتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کا دفتر خارجہ کہہ رہا ہے کہ پاکستان میں داعش کا وجود نہیں اور پنجاب حکومت کی جانب سے داعش کی موجودگی نامور کالم نگار طارق حبیب اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔کا جواب پنجاب حکومت ہی دے سکتی ہے۔دوسری بات یہ کہ اگر ذیشان داعش کا دہشت گرد تھا بھی تو گاڑی روک کر بچوں ‘خواتین اور مردوں پر اندھادھند فائرنگ کا کیا جواز تھا؟ جبکہ جوابی فائرنگ بھی نہیں ہوئی۔ درجنوں سوالات سر اٹھاتے ہیں‘ اگر ذیشان داعش کا دہشت گرد تھا تو گاڑی جب لاہور میں کئی روز پہلے چیک ہوگئی تھی تو کیوں نہیں پکڑا گیا؟ جب لاہور سے نکل رہی تھی تو کیوں نہیں پکڑا گیا؟ گاڑی روک کر جب بچوں کے والد سے بات چیت ہوگئی تھی پھر فائرنگ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ پہلے ڈکیت پھر اغواء کار اور پھر داعش کے دہشت گرد قرار دینے کے حوالے سے تین بار موقف کیوں تبدیل کیے گئے؟ کہانی پر کہانی کیوں تبدیل کی جاتی رہی؟کیا 13سالہ بچی کو چشم دید گواہ ہونے کی وجہ سے مار دیا گیا‘ کیونکہ ان بچوں میں وہ بڑی اور سمجھدارتھی؟پھر جب عوامی ردعمل آیا تو کہا گیا کہ موٹر سائیکل سوار ساتھیوں کی فائرنگ سے خاتون و بچی ماری گئیں‘ مگر اللہ رب العزت نے ان ظالموں کا بھانڈہ پھوڑنا تھا۔ عام شہریوں کی جانب سے بنائی گئی ویڈیوز سامنے آگئیں۔ وہ ویڈیوز جن میں اہلکار پہلے گاڑی میں موجود مردوں سے بات کرتے ہیں‘پھر چند فٹ کے فاصلے سے فائرنگ کرتے ہیں۔ تین بچوں کو نکالتے ہیں اور پھر فائرنگ کرتے ہیں۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق؛ 13سالہ بچی اریبہ اور اس کی والدہ نبیلہ کو دس فٹ کے فاصلے سے چھ چھ گولیاں ماری گئیں۔جب ہر طرف سے گھر گئے تو سی ٹی ڈی کی جانب سے موقف سامنے آیا کہ گاڑی کے شیشے کالے تھے ‘اس لیے خواتین و بچے نظر نہیں آئے۔ ٹول پلازہ پر لگے کیمرے نے سی ٹی ڈی کی اس نئی منطق کا بھی پول کھول دیا‘ جس میں گاڑی گزرتے وقت عقبی سیٹ پر بچی نظر آرہی ہے‘ جبکہ عینی شاہدین کے مطابق؛ گاڑی کے شیشے کالے نہیں تھے۔ ہر جھوٹ پکڑا جارہا تھا اس کے باوجود سی ٹی ڈی جھوٹ پر جھوٹ بولے جارہی ہے۔ چند وحشیوں کو بچانے کیلئے عالمی سطح پر داعش کا وجود نہ ہونے کے پاکستانی موقف کا رد کیا جارہا ہے۔بچوں کو پہلے بے یارومددگار پٹرول پمپ پر چھوڑ دیا گیا اور اس کے بعد ہسپتال پہنچا کر سی ٹی ڈی اہلکار فرار ہوگئے۔ ہسپتال اور پٹرول پمپ سے جب بچوں کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں معاملہ یکسر پلٹ گیا۔عوامی ردعمل شدید سے شدید تر ہوتا چلا گیا۔ ملک بھر میں سوگ کا سماں تھا‘ ان ظالموں کے گھروں کے سوا شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو ‘جہاں ان بچوں کو دیکھ کر آنکھیں اشکبار نہ ہوئی ہوں۔ کوئی بولا ، کہہ رہے ہیں ذیشان تو دہشت گرد تھا۔ میں نے کہا: ہوسکتا ہے‘ ذیشان دہشت گرد ہو‘ مگر جو تصویر شیئر کی گئی ہے تو کیا کسی کا دہشت گرد کے ساتھ سیلفی ہونا دہشت گرد بنا دیتا ہے۔ موجودہ وزیر داخلہ شہریار آفریدی کی منشیات فروش کے ساتھ‘ زرداری اور اس کی بہن فریال تالپور کی عزیر بلوچ کے ساتھ تصاویر‘ شریف برادران کی کالعدم تنظیموں کے رہنمائوں اور پومی بٹ وغیرہ کے ساتھ تصاویر اور کئی صحافیوں کی اسامہ بن لادن‘ بیت اللہ اور حکیم اللہ محسود کے ساتھ تصاویر موجود ہیں