دنیا میں آئے دن لوگ کئی طرح کی مصیبتوں سے دو چار ہوتے ہیں اور اکثر ان آزمائشوں میں ایک شکوہ ضرور کرتے نظر آتے ہیں کہ اللہ نے میرے ساتھ ہی ایسا کیوں کیا؟ اور مجھ ہی پر یہ مصیبت کیوں آئی؟ اس کے برعکس زندگی میں جب کوئی بڑی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو انسان ہر چیز کا کریڈٹ اپنی محنت، لگن اور ذہانت کو دیتا نظر آتا ہے، لیکن جیسے ہی کوئی آزمائش آن پڑتی ہے تو ہر چیز کا ذمہ دار حالات اور قسمت کو ٹھہرا کر طرح طرح کے گلے شکوے کیے جاتے ہیں۔
کچھ ایسی ہی آزمائش عبداللہ نامی ایک تیس سالہ نوجوان پر بھی گزشتہ کئی سال سے آئی ہوئی ہے جو اپنی زندگی میں رونما ہونے والے ایک حادثے کے باعث جسمانی طور پر مفلوج ہو کر رہ گیا۔ لیکن اس بندے کی ہمت کو سلام ہے کہ اس نے ایسی بے بسی کی حالت میں بھی گلے شکووں کے انبار گلے میں لٹا کر رکھنے کے بجائے اپنی معذوری کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھ کر اس کے ساتھ رہنا سیکھ لیا ہے۔ ” ایک مفلوج شخص کی تین خواہشات ” نامی ایک ویڈیو یوٹیوب پر بہت مقبول ہورہی ہے جس میں اسی مفلوج نوجوان عبداللہ سے ایک انٹرویو لیا گیا جس میں اس سے تین خواہشات پوچھی گئیں جن کے پورا نہ ہونے کو وہ سب سے زیادہ محسوس کرتا ہے۔
’’میری پہلی نا آسودہ خواہش جس کی میں بہت کمی محسوس کرتا ہوں، وہ میرا تندرست و توانا بدن ہے۔ ماضی کے اٹھارہ سالہ تندرست بدن کے ساتھ میں نے ایک بار بھی زمین پر اللہ کے حضور سجدہ نہیں کیا، لیکن اب اس بدن کے ساتھ میری خواہش ہے کہ میں زمین پر سر رکھ کر اللہ کے حضور سجدہ کروں… ایسا سجدہ کہ جس سے میں کبھی نہ اٹھوں، کیونکہ مجھے احساس ہوا ہے کہ کتنی زیادہ نعمتیں اللہ نے انسانوں کو عطا کی ہیں۔ لیکن جب آپ اپنی غفلت کی زندگی میں ڈوبے ہوں تو اپنے رب کی سب نعمتیں بھول جاتے ہیں۔
’’لوگ میری موجودہ حالت کو المیہ سمجھتے ہیں، حالانکہ اس سے بڑا المیہ یہ تھا کہ میرا بدن تندرست تھا لیکن نماز اور سجدے کی عبادت سے غافل تھا۔ قرآن کی ایک آیت ہے جس میں اللہ کے دیدار کا ذکر ہے اور خوشخبری ہے کہ اللہ کو دیکھتے ہی سب مومن سجدے میں گر جائیں گے؛ اور ساتھ ہی یہ تنبیہ بھی ہے کہ کچھ لوگ سجدہ نہیں کرسکیں گے۔ مجھے ڈر ہے کہ میں ان انسانوں میں سے نہ ہوں جو سجدہ نہ کرسکیں گے۔
’’میری دوسری کمی اپنے بازو اور ہاتھوں کو اٹھانے کی ہے، اور خواہش ہے کہ اپنے ہاتھوں کو دعا کےلیے اٹھاؤں اور قرآن پاک کے اوراق کو اپنے ہاتھوں سے پلٹوں، لیکن یہ سب اب میرے لیے ایک پہاڑ سر کرنے کے برابر ہے۔
’’میری تیسری خواہش، جس کے پورا نہ ہونے کے باعث مجھے اپنی زندگی میں بے حد کمی محسوس ہوتی ہے، یہ ہے کہ کوئی اسلامی تہوار، عید ہو یا کوئی اور خوشی کا موقع، اور میں اپنی ماں کو گلے لگا سکوں۔‘‘
عبداللہ کی خواہشات انتہائی حیران کن تھیں، کیونکہ ایک انسان جو مفلوجی کی زندگی بسر کر رہا ہو، اس کی خواہشات دنیا کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے مکمل بنانے کی نہیں تھیں بلکہ ایک سجدے، قرآن کی ورق گردانی اور ماں کے گلے لگنے کی تھیں۔ اس نے کسی شکوے اور مایوسیوں کو اپنی زندگی کا محور نہیں بنایا کہ اللہ نے میرے ساتھ ہی ایسا کیوں کیا جب کہ میں ایک خوشگوار اور مکمل زندگی بسر کررہا تھا اور آج مجھے کچھ بھی کرنے کے قابل نہ چھوڑا… حالانکہ ایسے حالات میں اپنے رب کے ساتھ بہت سے ایسے شکوے معمول بن چکے ہیں۔
انسانوں کا ایک عام رویہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب تک انسان کی زندگی خوشگوار گزر رہی ہوتی ہے تو اسے اپنے اردگرد لوگوں کے دکھ اور پریشانیاں نظر نہیں آتیں یا پھر وہ ان کی گہرائیوں کو محسوس کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ اور جیسے ہی حالات نے ذرا سا پلٹا کھایا، اس پر مشکل اور کٹھن وقت آیا، فوراً اسے اپنے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں ہونے والے ظلم و ستم، زیادتیاں بھی نظر آنے لگ جاتیں ہیں۔ وہ اپنی ناکامیوں کو اللہ یا حالات کے ذمے لگا کر خود کو بری الذمہ قرار دیتا نظر آتا ہے اور شکوے شکایتیں کرتا ہے کہ اللہ نے اس کے ساتھ ہی ایسا کیوں کیا؟
لیکن جب یہی انسان زندگی کے دن عیش و آرام سے بسر کر رہا ہوتا ہے اور اس کے اردگرد کے لوگ تنگ دستی کے ساتھ زندگی کے ایام گزار رہے ہوتے ہیں، تب یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ اللہ نے ان لوگوں کے ساتھ ایسا کیوں نہیں کیا؟
عبداللہ کی کہانی اس سے قدرے مختلف ہے، جو کٹھن اور مشکل حالات میں بھی زندگی کو ایک اور طریقے سے دیکھتا ہے۔ وہ شکوے اور شکایتوں کے انبار اکٹھے کرنے کے بجائے زندگی کو آگے لے کر جانے کی جدوجہد میں مصروف ہے اور آج کل پوری دنیا میں دین اسلام کی دعوت کا کام سرانجام دے رہا ہے۔ وہ اس بیماری کو حکمت جانتا ہے جو اسے اللہ کے قریب لانے کا سبب بنی۔ عبداللہ کے ایک ٹی وی پروگرام کے دوران ایک ماں کی کال آئی اور اس نے روتے ہوئے سوال کیا کہ عبداللہ ان ماؤں کا کیا ہو جن کے بچے تو صحت مند ہیں لیکن وہ ماں کو گلے لگانے کےلیے تیار نہیں۔
زندگی گزارنے کا ایک فارمولا رسول اللہ ﷺ نے بتایا کہ اپنے سےکمتر لوگوں کو دیکھو۔ اپنے سے کمتر کے پاس جب وہ کچھ نہیں ہوتا جو ہمارے پاس ہے، تو بہت سی چیزوں کی قدر آجاتی ہے اور فطرت میں قناعت پسندی کی روش پیدا ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر اپنا موازنہ اپنے سے برتر لوگوں سے کیا جائے تو سوائے حسرتوں اور مایوسیوں کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
اپنی آزمائشوں کا موازنہ عبداللہ کی اٹھارہ سالہ مفلوج زندگی سےضرور کیجیے۔ ذہن میں اس سوال کو جنم دینے کے بجائے کہ اللہ نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا، اس چیز کا شکر ادا کیجیے کہ اللہ کی ذات بہت کچھ اور بھی کرنے پر قادر تھی لیکن اس ذات نے کرم کیا اور بہت سی بیماریوں اور آزمائشیوں سے بچا کر رکھا۔ اپنی آزمائشوں اور مصیبتوں میں عبداللہ بننا سیکھیے، کیونکہ آپ کی مصیبت کتنی بھی بڑی اور کٹھن کیوں نہ ہو، وہ عبداللہ جیسی کبھی نہیں ہوسکتی۔