1944ء سے اب تک عالمی تجارت میں ڈالرز کی اہمیت کم نہیں ہو سکی کیونکہ امریکا ابھی تک معاشی طور سب سے طاقتور ملک چلا آ رہا ہے۔
لاہور:دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا سپر پاور بن کر سامنے آیا۔ تب تباہ حال یورپی ممالک بھی اس کی امداد کے منتظر تھے۔ چنانچہ امریکی ترغیب اور دھونس کے ذریعے 1944ء میں نیا مالیاتی نظام وضع کرنے میں کامیاب رہے، جس میں ڈالر عالمی کرنسی بن گیا۔ یہ نظام بریٹن ووڈز معاہدے کے ذریعے وجود میں آیا، جس پر 44 ممالک نے دستخط کیے تھے۔ یوں باقی ممالک کو بھی نہ چاہنے کے باوجود ڈالر کو بحیثیت عالمی کرنسی قبول کرنا پڑا۔ بریٹن ووڈز معاہدے کی اہم ترین شق یہ تھی کہ امریکی سٹیٹ بینک (دی فیڈرل ریزرو) کے پاس جتنا سونا ہوگا، وہ اتنے ہی ڈالر چھاپ سکے گا۔ تاہم 1971ء میں جب نیا مالیاتی عالمی نظام راسخ ہو گیا تو امریکی حکومت نے قلا بازی کھائی اور فیصلہ کیا کہ وہ حسب منشا ڈالر چھاپے گی۔ یوں بریٹن ووڈز معاہدہ اپنے انجام کو پہنچا، لیکن عالمی تجارت میں ڈالر کی اہمیت کم نہ ہو سکی کیونکہ امریکہ ابھی تک معاشی طور سب سے طاقتور ملک چلا آ رہا ہے۔
عالمی تجارت میں ایک کرنسی کی اجارہ داری دراصل استعمار پسندی اور غلامی ہی کا ایک روپ ہے۔ مثلاً امریکا جب چاہے اپنی کرنسی کی قدرو قیمت بڑھا یا گھٹا دیتا ہے۔ ڈالر پر مبنی عالمی تجارت کا نظام سراسر ہماری آزادی اور خود مختاری کے خلاف ہے، مگر پاکستان ہی نہیں دنیا کے کئی ممالک کو بھی یہی مجبوری درپیش ہے۔ یورپی ممالک یورو کرنسی سامنے لائے تا کہ ڈالر کی اجارہ داری ختم ہو سکے لیکن انھیں زیادہ کامیابی نہیں ملی۔