لاہور(ویب ڈیسک)یکم اپریل 1929ء کی رات ایک نوجوان غازی علم الدین شہیدؒ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ دہلی دروازہ کے باغ میں جلسہ سننے چلے گئے، جہاں سیّد عطا اللہ شاہ بخاریؒ نے بڑی رقت انگیز تقریر کی۔ دفعہ 144 کا نفاذ تھا جس کی رو سے کسی نوع کا جلسہ یا اجتماع نہیں
صف اول کے لکھاری محمد مطعین خالد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔ہو سکتا تھا، لیکن مسلمانوں کا ایک فقید المثال اجتماع بیرون دہلی دروازہ درگاہ شاہ محمد غوثؒ کے احاطہ میں منعقد ہوا۔ وہاں اس عاشق رسولؐ نے ناموسِ رسالت پر جو تقریر کی، وہ اتنی دل گداز تھی کہ سامعین پر رقت طاری ہو گئی۔ کچھ لوگ تو دھاڑیں مار مارکر رونے لگے۔ شاہ جی نے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا:’’آج آپ لوگ جناب فخر رسل محمد عربیؐ کے عزت و ناموس کو برقرار رکھنے کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں۔ آج جنس انسان کو عزت بخشنے والے کی عزت خطرہ میں ہے۔ آج اس جلیل المرتبت کی ناموس معرض خطر میں ہے ،جس کی دی ہوئی عزت پر تمام موجودات کو ناز ہے‘‘۔ اس جلسہ میں مفتی کفایت اللہ اور مولانا احمد سعید دہلوی بھی موجود تھے۔ شاہ جی نے ان سے مخاطب ہو کر کہا۔’’آج مفتی کفایت اللہ اور احمد سعید کے دروازے پر اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ اور اُمُّ المومنین خدیجہ الکبرٰیؓ کھڑی آواز دے رہی ہیں۔ ہم تمہاری مائیں ہیں۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ کفار نے ہمیں گالیاں دی ہیں۔ ارے دیکھو! کہیں اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ دروازہ پر تو کھڑی نہیں؟‘‘یہ الفاظ دل کی گہرائیوں سے اس جوش اور ولولہ کے ساتھ اُبل پڑے کہ سامعین کی نظریں معاً دروازے کی
طرف اُٹھ گئیں اور ہر طرف سے آہ و بکا کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ پھر اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا۔’’تمہاری محبتوں کا تو یہ عالم ہے کہ عام حالتوں میں کٹ مرتے ہو، لیکن کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آج گنبدِ خضرٰی میں رسولؐ اللہ تڑپ رہے ہیں۔ آج خدیجہؓ اور عائشہؓ پریشان ہیں۔ بتاؤ! تمہارے دِلوں میں اُمہات المومنین کے لئے کوئی جگہ ہے؟ آج اُمُّ المومنین عائشہؓ تم سے اپنے حق کا مطالبہ کرتی ہیں۔ وہی عائشہؓ جنہیں رسولؐ اللہ ’’حمیرا‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے،جنہوں نے سید عالم ؐ کو وصال کے وقت مسواک چبا کر دی تھی۔ یاد رکھو کہ اگرتم نے خدیجہؓ اور عائشہؓ کے لئے جانیں دے دیں تو یہ کچھ کم فخر کی بات نہیں‘‘۔شاہ جی نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا۔’’جب تک ایک مسلمان بھی زندہ ہے، ناموس رسالت پر حملہ کرنے والے چین سے نہیں رہ سکتے۔ پولیس جھوٹی، حکومت کوڑھی اور ڈپٹی کمشنر نااہل ہے۔ وہ ہندو اخبارات کی ہرزہ سرائی تو روک نہیں سکتا، لیکن علمائے کرام کی تقریریں روکنا چاہتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ دفعہ 144 کے یہیں پرخچے اُڑا دیئے جائیں۔ مَیں دفعہ 144 کو اپنے جوتے کی نوک تلے مسل کر بتا دوں گا۔
پڑا فلک کو ابھی دِل جلوں سے کام نہیں۔۔۔۔جلا کے راکھ نہ کر دوں تو داغ نام نہیں۔۔۔۔۔داغ کا یہ شعر شاہ جی نے کچھ اس انداز سے پڑھا کہ لوگ بے قابو ہو گئے۔ اس تقریر سے سارے شہر میں کہرام مچ گیا۔ لاہور میں بدنام زمانہ کتاب، اس کے مصنف اور ناشر کے خلاف جا بجا جلسے ہونے لگے۔6 اپریل 1929ء کو غازی علم الدین ٹھیک ایک بجے راجپال کی دکان پر پہنچ گئے اور دریافت کیا کہ راجپال کہاں ہے؟ راجپال نے خود ہی کہا۔ مَیں ہوں کیا کام ہے؟ غازی صاحب نے چھری نکال کر اس پر بھرپور حملہ کیا۔ پھر پے در پے وار کر کے اُسے واصل جہنم کر دیا اور کہا یہی کام تھا۔ غازی صاحب کو گرفتار کر لیا گیا۔ 10 اپریل 1929ء کو سیشن جج کی عدالت میں مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی۔ 22 مئی 1929ء کو غازی صاحب کو سزائے موت کا حکم سنا دیا گیا۔ 30 مئی کو ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ 15 جولائی کو قائداعظم محمد علی جناحؒ اس مقدمہ کی وکالت کے لئے ہائی کورٹ میں پیش ہوئے، مگر ہائی کورٹ نے اپیل خارج کر دی۔31 اکتوبر 1929ء کو علم الدین نے حسبِ معمول تہجد کی
نماز پڑھی اور بارگاہِ الٰہی میں دُعاگو ہی تھے کہ انہیں کسی کے بھاری قدموں کی چاپ سنائی دی اور پھر کمرے کے بند دروازے کے سامنے ہی کسی کے رکنے کی آواز کے کھٹکے پر غازی صاحب نے جو اُدھر دیکھا تو پھانسی دینے والے عملہ کو اپنا منتظر پایا۔ اس موقع پر داروغہ جیل کی آنکھوں سے شدت جذبات سے آنسو بہہ نکلے۔۔۔ آپ نے اس کی طرف دیکھا اور کہا تم گواہ رہنا کہ میری آخری آرزو کیا تھی۔آپؒ نے معمول سے بھی کم وقت میں نماز ادا کی۔۔۔ اتنی جلدی آخر کس لئے تھی، ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ بات ہو کہ کہیں مجسٹریٹ یہ تصور نہ کرے کہ محض زندگی کی آخری گھڑیوں کو طول دینے کے لئے دیر کر رہا ہوں۔ داروغہ جیل نے بند دروازہ کھولا۔۔۔ آپ اُٹھے اور مسکراتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھے۔ دایاں پاؤں کمرے سے باہر رکھتے ہوئے انہوں نے مجسٹریٹ سے کہا۔ چلئے! دیر نہ کریں۔ اس کے ساتھ ہی آپ تیز تیز قدم اٹھاتے تختۂ دار کی جانب چل پڑے۔ ایک کمرے کے سامنے سے گزرتے ہوئے آپ نے ہاتھ اُٹھا کر ایک قیدی کو خدا حافظ کہا۔۔۔ جواباً اس نے نعرۂ رسالتؐ بلند کیا۔
تب جیل حکام اور مجسٹریٹ کو معلوم ہوا کہ جیل میں سبھی قیدی علم الدینؒ کو مبارک باد دینے کے لئے ساری رات سے جاگ رہے ہیں۔ کلمہ شہادت کے ورد سے فضا گونج رہی تھی۔ علم الدینؒ لمحہ بھر کے لئے رکے۔۔۔ مجسٹریٹ اور پولیس کے دستے کی طرف دیکھا، ان کے لب ہلے اور پھر چل دیئے۔تختۂ دار کے قریب متعلقہ حکام کے علاوہ مسلح پولیس کے جوان بھی کھڑے تھے۔ سب کی نظریں آپ پر جمی ہوئی تھیں۔ ان کی نظروں نے اِس سے پہلے بھی کئی لوگوں کو تختۂ دار تک پہنچتے دیکھا تھا، لیکن جس شان اور قوتِ ارادی سے انہوں نے علم الدین کو تختۂ دار کی جانب بڑھتے دیکھا، وہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ جو ’’حیات‘‘ علم ا لدین کو نصیب ہونے والی تھی، اس کا تو ہر مسلمان آرزو مند رہتا ہے۔اس وقت آپؒ کی آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھی ہوئی تھی اور آپؒ کو سیاہ رنگ کا لباس پہنا دیا گیا۔ جب مجسٹریٹ نے آپؒ سے آپؒ کی آخری خواہش پوچھی تو آپؒ نے فرمایا کہ ’’مَیں پھانسی کا پھندہ چوم کر خود اپنے گلے میں ڈالنا چاہتا ہوں۔‘‘بعدازاں علم الدینؒ کے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے گئے۔
اِس دوران مَیں آپؒ نے اردگرد کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:’’تم گواہ رہو کہ مَیں نے حرمت رسولؐ کے لئے راجپال کو قتل کیا ہے۔ اور گواہ رہنا کہ میں عشق رسولؐ میں کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے جان دے رہا ہوں۔ آپؒ نے کلمہ شہادت باآوازِ بلند پڑھا اور پھر رسنِ دار کو بوسہ دیا۔ علم الدینؒ حقیقت میں ہر اس شے کو مبارک سمجھتے تھے جو ان کو بارگاہِ حبیب میں پہنچانے کا ذریعہ بن رہی تھی۔ آپؒ کے گلے میں رسہ ڈال دیا گیا۔مجسٹریٹ کا ہاتھ فضا میں بلند ہوا اور ایک خفیف اشارے کے ساتھ ہی آپؒ کے پاؤں کے نیچے سے تختہ کھینچ لیا گیا۔۔۔ چند لمحوں میں ہی آپؒ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔۔۔ اس نے جسم کو تڑپنے پھڑکنے کی بھی زحمت نہ ہونے دی۔ گویا حضرت عزرائیل نے عاشق رسولؐ کی جان ان کے جسم سے رسہ لٹکنے سے پہلے ہی قبض کر لی ہو اور پھانسی کی زحمت سے بچا لیا ہو۔ڈاکٹر نے موت کی تصدیق کی اور آپ کے لاشہ کو پھانسی کے تختہ سے اتارا گیا۔۔۔۔۔زینتِ دار بنانا تو کوئی بات نہیں۔۔۔۔نعرۂ حق کی کوئی اور سزا دی جائے۔۔۔۔ادھر جیل کے باہر علم الدین کے والد طالع مند کے علاوہ سینکڑوں مسلمان اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ
حکام لاش ان کے حوالے کریں، لیکن اعلیٰ حکام نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ علم الدین کی میت مسلمانوں کے حوالے نہ کی جائے۔ انہیں خطرہ تھا کہ مسلمان جلسے اور جلوس نکالیں گے، جن سے حالات خراب ہوں گے۔غازی علم الدین شہیدؒ کی شہادت پر میانوالی میں فرنگی حکومت کے خلاف زبردست احتجاجی جلوس نکلے، ہڑتالیں ہوئیں، شہیدؒ کا سوگ منایا گیا، غم و غصہ کا اظہار ہوا۔ شہیدؒ کے جنازہ میں قیدیوں کے علاوہ کچھ مقامی مسلمانوں نے بھی شرکت کی۔ حکومت وقت نے میانوالی کے کئی افراد کو گرفتار کیا، ان پر مقدمہ چلایا، جس میں ان کو چھ چھ ماہ قید اور جرمانے کی سزا دی گئی۔غازی علم الدین شہیدؒ کی شہادت کے بعد ناعاقبت اندیش گورنر کی ہدایت کے مطابق غازی شہیدؒ کو بے یار و مددگار ایک مردہ اور بے بس قوم کا فرد سمجھ کر اس کی پاک میت کو میانوالی میں قیدیوں کے قبرستان میں دفنا دیا گیا۔جب یہ خبر لاہور اور مُلک کے دوسرے حصوں میں پہنچی تو ہر طرف احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ 4 نومبر 1929ء کو مسلمانوں کا ایک وفد جیفری ڈی مونٹ مورنسی گورنر پنجاب سے ملا اور اپنا مطالبہ پیش کیا۔ بالآخر چند شرائط کے تحت مسلمانوں کا مطالبہ منظور کر لیا گیا۔
مسلمانوں کا ایک وفد ’’سید مراتب علی شاہ‘‘ اور ’’مجسٹریٹ مرزا مہدی حسن‘‘ کی قیادت میں 13 نومبر 1929ء کو میانوالی آیا۔ اس وقت کے ڈپٹی کمشنر میانوالی راجہ مہدی زمان نے میزبانی کے فرائض سرانجام دیا۔میانوالی کے ایک معمار نے بکس تیار کیا اور ضلعی حکام اور معمار نور دین دوسرے روز علی الصباح غازی علم الدین شہیدؒ کی نعش بصد احترام میانوالی میں قیدیوں کے قبرستان سے نکال کر ڈپٹی کمشنر میانوالی کے بنگلے پر لائے۔ معمار نور دین نے بتایا کہ دو ہفتے گزر جانے کے بعد بھی نعش میں ذرا برابر تعفن نہیں تھا اور نعش سے مسحور کن خوشبو آ رہی تھی۔ انہوں نے ڈی سی میانوالی کی کوٹھی پر شہیدؒ کی نعش کو بکس میں محفوظ کیا۔ یہاں سے نعش کو اسٹیشن میانوالی لایا گیا اور ایک سپیشل گاڑی کے ذریعے لاہور لایا گیا اور پھر لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں غازی علم الدین شہیدؒ کو سپردِ خاک کر دیا گیا۔یاد رہے کہ غازی علم الدین شہیدؒ کے جنازہ میں مسلمانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس جنازے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ نمازِ جنازہ چار دفعہ پڑھائی گئی۔ پہلی دفعہ نمازِ جنازہ مولانا محمد شمس الدین خطیب مسجد وزیر خان نے پڑھائی اور دوسری دفعہ نمازِ جنازہ
سید دیدار علی شاہ نے پڑھائی۔ جنازے کا جلوس ساڑھے پانچ میل لمبا تھا۔ میت کو ’’مولانا سید دیدار علی شاہ‘‘ اور حضرت علامہ اقبال نے اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا۔ اس موقع پر علامہ اقبالؒ نے غازی علم الدین شہیدؒ کا ماتھا چوما اور کہا:’’اسی تے گلاں کر دے رہ گئے تے ترکھاناں دا مُنڈا بازی لے گیا‘‘۔یہاں ایک ایمان افروز واقعہ کا ذکر کرنا اہمیت سے خالی نہ ہوگا کہ میانوالی جیل میں معروف ڈاکو محمد خاں نے دوران قید غازی علم الدین شہیدؒ کو اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہ رضامند ہوں تو میں انہیں ایک خفیہ سرنگ کے ذریعے جیل سے بحفاظت نکال سکتا ہوں مگر غازی علم الدین شہیدؒ اس پر راضی نہ ہوئے۔ 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں عالمی مجلس تحفظِ ختم نبوت کے امیر قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ گرفتار ہو کر میانوالی جیل میں قید ہوئے۔ دورانِ قید میں ان کی ملاقات عبداللہ نامی ایک ایسے خوش نصیب قیدی وارڈن سے ہوئی،جو جیل میں غازی علم الدین شہیدؒ کی نگرانی پر مامور تھا۔ عبداللہ نے قاضی احسان احمد شجاع آبادی کو کئی مواقع پر غازی علم الدین شہیدؒ کے حالات و واقعات سنائے۔ ایک دن عبداللہ وارڈن نے قاضی صاحب کو بتایا کہ آپ بہت
خوش قسمت ہیں کہ آپ غازی علم الدین شہیدؒ والی کوٹھری میں قید ہیں۔ قاضی صاحب نے عبداللہ سے درخواست کی کہ وہ غازی علم الدین شہیدؒ کا کوئی ناقابلِ فراموش واقعہ سنائے۔ عبداللہ وارڈن کے چہرے پر مزید نورانیت اور بشاشت اتر آئی۔ پھر اس نے بتایا کہ جس دن، یعنی 31 اکتوبر 1929ء کو جب غازی علم الدین کو پھانسی ہونا تھی، اس سے ایک روز پہلے مَیں حسب معمول غازیؒ کی کوٹھڑی کا پہرہ دے رہا تھا۔ پیدل چلتے ہوئے میں کوٹھری سے ذرا فاصلے پر عام قیدیوں کی بیرک کی طرف آ گیا۔ مڑ کر کیا دیکھتا ہوں کہ غازی کا کمرہ خوبصورت اور دلکش روشنیوں سے بھر گیا ہے۔مَیں یہ سمجھا کہ شاید غازی علم الدین شہیدؒ نے اپنے کمرے کو آگ لگا لی ہے۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ نور کا ایک بادل ہے،جو تیزی سے آسمانوں کی طرف چلا گیا، چنانچہ میں بھاگم بھاگ غازیؒ کی کوٹھری کی طرف بھاگا۔ اندر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پورا کمرہ بہترین اور مسحور کن خوشبوؤں سے معطر اور منور تھا۔ غازیؒ حالت سجدہ میں زار و قطار رو رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد اٹھے تو میں نے ان کی قدم بوسی کی اور خود بھی بے اختیار رونا شروع کر دیا۔
پھر میں نے عرض کیا، غازی صاحب یہ کیا ماجرا تھا؟غازی صاحب نے کوئی جواب نہ دیا۔مَیں نے پھر عرض کیا کہ حضرت! آپ یہ اہم راز اپنے سینے میں لے کر نہ جائیں اور اس واقعہ کی تفصیلات ضرور بتائیں، بہرحال غازیؒ نے میرے بے حد اصرار پر فرمایا، عبداللہ! تمہیں معلوم ہے کہ مجھے کل پھانسی ہو رہی ہے۔ میری دلجوئی اور حوصلہ افزائی کے لئے شافع محشر، حضور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ؐ اپنے خاص صحابۂ کرامؓ کے ساتھ یہاں خود تشریف لائے اور بڑی محبت اور شفقت فرمائی۔ اس موقع پر حضرت علیؓ نے مجھ سے پوچھا کہ غازی بیٹا! تمہیں پھانسی کا خوف تو نہیں ہے؟مَیں نے عرض کیا۔ حضور! بالکل نہیں۔ فرمایا: بیٹا اگر کوئی خوف ہے تو آؤ ہمارے ساتھ چلو۔ مَیں نے پھر عرض کیا۔ حضور! نہیں،ایسی کوئی بات نہیں۔ میں تو بہت خوش اور مطمئن ہوں۔ پھر پیارے آقا و مولا حضور نبی کریمؐ نے میرے سر پر اپنا دستِ مبارک رکھ کر فرمایا: غازی بیٹا! پھانسی کے وقت جیل حکام تم سے تمہاری آخری خواہش پوچھیں گے، تم کہنا کہ میرے ہاتھ کھول دیں۔ مَیں پھانسی کا پھندا چوم کر خود اپنے گلے میں ڈالنا چاہتا ہوں تاکہ دُنیا کو
معلوم ہو جائے کہ مسلمان اپنے پیارے نبیؐ کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا سب سے بڑی سعادت سمجھتا ہے۔ دوسرا یہ کہ تم روزہ رکھ کر آنا، میں تمام صحابۂ کرامؓ اور فرشتوں کے ہمراہ حوض کوثر پر تیرا استقبال کروں گا اور ہم سب روزہ اکٹھے افطار کریں گے‘‘۔یہ ہے تحفظ ناموس رسالتؐ کا صلہ!شہید ناموس رسالت غازی علم الدین شہیدؒ کی ایک زندہ کرامت یہ بھی ہے کہ زندگی میں جب کوئی مشکل یا پریشانی لاحق ہو تو دو رکعت نفل ادا کرے ۔ پھر ایک تسبیح درود شریف پڑھ کر غازی علم الدین شہیدؒ کی لازوال قربانی کا واسطہ دے کر حضوری کی کیفیت میں اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگیں تو آپ کی حاجت ہر حال میں پوری ہوگی۔ عرصہ دراز سے یہ میرا اور میری فیملی کا آزمودہ نسخہ ہے۔غازی صاحب کا مزارِ پاک لاہور کے مشہور قبرستان ’’میانی صاحب‘‘ نزد چوبرجی چوک لاہور میں آج بھی مرجع خلائق ہے۔ 30 اور 31 اکتوبر کو آپؒ کی برسی بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو محبتِ رسولؐ کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین!۔۔۔کفر لرزاں ہے تیرے نام سے اے علم الدین۔۔۔حق ہے مسرور تیرے نام سے اے علم الدین