ہم نے اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ سیاست بڑی بے رحم چیز ہے اور اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا مگر یہ بات کرنے والے زیادہ تر عام لوگ ہی تھے۔ ہم نے کبھی کسی سیاست دان کے منہ سے ایسا نہیں سنا شائد اس کی وجہ سیاست کا اُن کی روزی روٹی ہونا ہے کیوں کہ ابھی ہمارا معاشرہ اتنا بھی گراوٹ کا شکار نہیں ہوا کہ اپنے روزگار کو بُراکہے لیکن ہمیں لگتا ہے کہ سیاست اتنی بے رحم نہیں جتنا اُسے کرنے والے ہوتے ہیں اور شائد انہی جیتے جاگتے انسانوں کی وجہ سے کہا گیا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔
ہمارے خیال میں سیاست دراصل دماغ اور اعصاب کا کھیل ہے اور اس کے لئے دوراندیشی و زہانت بنیادی شرط ہے لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر کامیاب سیاست دان دوراندیش اور زہین بھی ہو کیوں کہ اگر سچ مُچ ایسا ہوتا تو ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر نہ ہوتے ۔ صرف امریکا ہی نہیں پاکستان میں ایسے قسمت کے دھنی سیاستدانوں کی بہتات ہے کہ ذہانت اور دور اندیشی جن کو چُھو کر بھی نہیں گزری۔ واہ واہ، نعروں اور تالیوں کے عادی ہمارے سیاست دان اکثر دادوتحسین کی خاطر ایسی بات کر جاتے ہیں جو بعد میں اُن کے گلے کا ہار بن جاتی ہے اور اُس سے جان چھڑانا مشکل ہی نہیں نامُمکن ہو جاتا ہے۔ اپنے میاں صاحب کا بھرے جلسے میں روتے ہوئے لوگوں سے پوچھنا کہ ”مجھے کیوں نکالا“ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ”مجھے کیوں نکالا“ گذشتہ سال 2017ء کا مقبول ترین جملہ رہا تو غلط نہ ہو گا۔ پرائیویٹ ٹی وی چینلز نے تو اس جملے کی جو درگت بنائی وہ الگ، ایسے ایسے لطیفے کہ بنانے والوں کی زہانت کی داد دینی چاہیے۔ رکشاﺅں، کاروں اور حد تو یہ کہ گدھا گاڑیوں پر بھی لکھا نظر آیا کہ “مجھے کیوں نکالا”۔
چند روز قبل پنجاب اسمبلی پریس گیلری کی دعوت پر صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ کے ”میٹ دی پریس“ پروگرام میں جانے کا اتفاق ہوا۔ راناثناءایسے سیاستدان ہیں جو بہت کچھ کہہ کر بھی کچھ نہیں کہتے اور اُن کی بہت سی باتیں محفل کو کُشت زعفران بنا دیتی ہیں۔ رانا صاحب نے اپنے سیاسی حریف شیخ رشید سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال پر کمال لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے اُلٹا صحافیوں سے دریافت کرتے ہوئے کہا “کون!وہ پنڈی کا شیطان”۔ اب ایسی بات تو ایک حاضر دماغ شخص ہی کر سکتا ہے اور رانا صاحب تو ٹھرے فُل ٹائم سیاست دان ۔ سیاستدان وہی کامیاب اور مقبول ہوتا ہے جو موقع پر آئیں بائیں شائیں کرنے کے بجائے جواب دے سکے نہ کہ دیار غیر میں بسے ہمارے ایک دوست کی طرح جو اکثر مشکل سوالوں کا جواب اپنے ہاتھوں سے دینا شروع کردیتا ہے اور اُس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ سوال کرنے والا کم از کم اُس کے “جواب” سے ہر گز نہ بچ سکے۔
بات کہیں اور نکل گئی ذکر ہو رہا تھا “مجھے کیوں نکالا” کا۔ ویسے ہمارے ہاں جس طرح پاپولر چیزوں کو نقل کیا جاتا ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اب تک “مجھے کیوں نکالا برگر” یا کم از کم اس نام سے شوارمااور بریانی تو مارکیٹ میں آجانی چاہیے تھی مگر نہ جانے کیوں اتنے سُپر ہٹ جملے کی اُس طرح پذیرائی نہیں ہوئی جو اس کا حق تھا۔اور تو اور سٹیج ڈرامے والے جو ہر اُلٹے سیدھے نام پر ڈراما کرنے میں ذرا دیر نہیں کرتے انہوں نے بھی “مجھے کیوں نکالا”کو سرے سے جیسے نظرانداز ہی کر دیا ہو حالاں کہ نہ صرف نام کے حساب سے اپنے “سکرپٹ” اور واقعات و اداکاری کے حوالے سے بھی “مجھے کیوں نکالا” کامیڈی سے بھرپور تین ایکٹ کا مکمل مزاحیہ کھیل ہی لگتا ہے۔
ہمارے خیال میں پہلا ایکٹ جلاوطنی کی زندگی پر مبنی ہو اور کہیں خیالوں میں یہ جملہ “مجھے کیوں نکالا” گردش کر رہاہو مگر مرکزی کردار کو یہ سمجھ نہ آئے کہ آخر یہ کیسی آواز ہے جو اُس کے لاشعور سے ٹکراتی ہے مگر شعور میں آتے ہی مکمل خاموشی چھا جاتی ہے ۔دوسرے ایکٹ میں بادشاہت کا نشہ اور اقتدار کی مدہوشی دکھائی جاسکتی ہے اور ہر طرف سڑکیں ویژول ایفیکٹس کے ذریعے اچھا تاثر پیدا کر سکتی ہیں ۔ اس ایکٹ میں دھرنا ٹائپ رقص شامل کر لئے جائیں تو مزہ دوبالا ہو سکتا ہے ۔ دوسرے ایکٹ میں بادشاہ سلامت کی ہر بات کو درست اور عین جائز ثابت کرنے والے کچھ مزید کریکٹرز بھی شامل کرنا ضروری ہیں اور سب سے اہم کردار بھی شامل کیا جائے جس کا چہرہ تیسرے اور آخری ایکٹ سے پہلے نہ ہی دکھایا جائے تو ڈراما حقیقی کہانی کا روپ دھار سکتا ہے۔ ڈراپ سین چوں کہ خاصا جذباتی ہے اس لئے اسے بڑی احتیاط کے ساتھ پیش کیا جانا چاہیے۔دراصل یہی وہ سین ہے جونہ صرف اس کھیل کا کلائمیکس ہے بلکہ ڈرامے کا مرکزی خیال بھی یہی ہے۔
“مجھے کیوں نکالا” کو سبق آموز کھیل بھی کہا جاسکتا ہے مگر چوں کہ ہمارے ہاں سبق سیکھنے کا رجحان ہے اور نہ ہی مزاج اس لئے اسے قطعی طور پر سیریس لینے کی ضرورت نہیں البتہ اس بات پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے کہ آخر نکالا کیوں؟ اور اگر آپ کو یہ بات سمجھ آجائے تو “ڈرامے” کا مزہ دوبالا بلکہ “تہہ و بالا” بھی ہو سکتا ہے۔