سوال یہ نہیں کہ کاروباری حضرات ٹیکس کیوں نہیں دیتے؟بلکہ سوال یہ ہے کہ اُن سے ٹیکس وصول کرنے کا خاص میکنزم موجود کیوں نہیں ہے؟ سوال یہ بھی نہیں کہ ٹیکس دینے کا کلچر یہاں کیوں نہیں ہے؟ بلکہ سوال یہ ہے کہ جب ہمارے ملک کی 90 فیصد کاروباری شخصیات کے خاندانی مراسم سیاسی شخصیات کے ساتھ ہیں تو بھلا وہ ٹیکس کیوں دیں گی؟ اور سوال یہ بھی نہیں ہے کہ لوگ ٹیکس کیوں نہیں دیتے بلکہ سوال یہ ہے کہ لوگ ٹیکس دیں تو کیوں دیں؟ جب اُنہیں وہ سہولیات میسر ہی نہیں جن کے وہ حقدار ہیں یا جن سہولیات کی ذمے داری ریاست کے پاس ہونی چاہیے۔
کیا کبھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ٹیکس دینے کا کلچر یہاں کیوں پروان نہ چڑھ سکا۔ کیا کبھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی سابقہ حکومتیں عام آدمی پر ہی ٹیکس لگا کر ٹیکس اکٹھا کرنے پر ہی اکتفا کیوں کرتی رہیں؟ یقینا جاننے کی کوشش کر کے آنکھیں موند لی جاتی ہوں گی کیوں کہ ٹیکس نادہندگان میں سابقہ حکومتوں کے سربراہان سمیت ترجمان تک شامل رہے۔
تبھی توآج ہر کاروباری شخصیت کا کسی نہ کسی طرح تعلق سیاست سے نکل ہی آتا ہے۔ پھر عمران خان کے حصے میں جو نظام آیا ہے وہ بھی انھی لوگوں کا بنایا ہوا ہے۔اور جب عمران خان اس دعوے کے ساتھ حکومت میں آئے تھے کہ عوام انھیں ضرور ٹیکس دیں گے! مگر وہ ناکام ہوگئے۔ اور رواں مالی سال میں گزشتہ سالوں سے بھی کم ٹیکس اکٹھا ہوا۔ اب بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال آرہا ہوگا کہ عوام اپنی تنخواہ سے لے کر صابن تک پر ہر چیز میں ٹیکس دیتے تو ہیں پھر یہ ’’الزام‘‘کیوں؟ حقیقت میں ٹیکس کسی بھی ملک میں وہی ہوتا ہے جو سرمایہ داراور کاروباری حضرات اپنی آمدنی میں سے حکومت کو ادا کریںباقی ٹیکس تو ’’چھان بورا‘‘ ہی ہوتا ہے۔
حد تو یہ ہے کہ کاروباری حضرات جنہوں نے ٹیکس ادا کرنا ہوتاہے وہ رمضان میں ڈیڑھ ڈیڑھ کلومیٹر لمبا افطار دسترخوان بچھا کر غریبوں پر رقم لٹا دیں گے مگر حکومت کو ایک پائی ادا نہیں کریںگے۔ عجیب قوم ہے جو خیرات و صدقہ دینے کے معاملے میں دنیا کی دس بڑی مگر ٹیکس کے معاملے میں دس سب سے نچلی قوموں میں شمار ہوتی ہے۔یعنی پاکستان میں 99 فیصد لوگ ٹیکس نہیں دیتے اور جو ایک فیصد دیتے بھی ہیں وہ بھی پورا نہیں دیتے سوائے ان سرکاری ونجی ملازموں کے جن کا ٹیکس تنخواہ سے ہی کاٹ لیا جاتا ہے۔ نجی شعبہ جیسا کیسا بھی ٹیکس دیتا ہے اس میں سے بھی 62 فیصد راستے میں ہی ٹیکس دہندہ، ٹیکس کلیکٹر اور ٹیکس پریکٹیشنر کے درمیان کہیں غتربود ہو جاتا ہے اور صرف 38فیصد سرکاری خزانے تک پہنچتا ہے۔
اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ جنہوں نے ٹیکس لینا ہے(ٹیکس کولیکٹر)، وہ خود چند ہزار روپے تنخواہ لینے کی وجہ سے بہت جلد رشوت خوری پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ ٹیکس ریکوری کے لیے جو فیلڈآفیسر ہے اُس کا معیار بھی اس قدر ’’ماشاء اللہ‘‘ ہوتا ہے کہ کمرشل پلازوں سے اپنے 50 ہزار کھرے کرنے کے لیے حکومت کو سالانہ کروڑوں کا ٹیکہ لگا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام سرمایہ دار یا کاروباری شخص رشوت دینے کو ترجیح دیتا ہے۔ اور جب انھیں علم ہوتا ہے کہ اُن کا پیسا ان سیاستدانوں کے ذاتی فلیٹس یا کاروباروں میں خرچ ہونا ہے تو وہ کیوں ٹیکس دیں گے؟ اور یہی لوگ ایدھی فاؤنڈیشن جیسے اداروں کو آنکھ بند کر کے بلا رسید خیرات و چندہ دینے سے قطعاً نہیں ہچکچاتے۔ وجہ جاننے کے لیے اقتصادیات میں پی ایچ ڈی قطعاً ضروری نہیں۔
بات سیدھی سیدھی ہے۔ ریاست کو لوگوں پر اور لوگوں کو ریاست پر اعتماد نہیں اور اس اعتماد میں عمران خان قصور وار نہیں! سابقہ ادوار میں ناقص نظام کی وجہ سے لوگوں کا اعتبار اس قدر متزلزل ہوچکا ہے کہ اُن کے بقول جب سرکاری اسپتال کے کا ریڈو کے فرش پر میرا لختِ جگر دو گھنٹے تک ابتدائی طبی امداد کے انتظار میں تڑپ تڑپ کے مرجائے تو وہ ٹیکس کیوں دے؟ جب میرے ملک کے سابق حکمران ملک کے دوسرے اور تیسرے امیر ترین افراد میں یوں شامل ہو گئے کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی جب کہ اس کے برعکس عوام اور ملک قرضوں کی دلدل میں پھنستے چلے گئے تو وہ ٹیکس کیوں دے؟جب میرے ملک کے سابق حکمران خود کھربوں روپے کے کاروبار ہونے کے باوجود محض چند ہزار روپے ٹیکس ادا کرتے رہے ۔
(آپ اعداد شمار نکال کر دیکھ لیں کہ آخری مالی سال میں کس نے کتنا ٹیکس ادا کیا آپ کے ہوش اُڑ جائیں گے۔جب صورتحال ایسی ہوتو وہ ٹیکس کیوں دے؟ اور جب سارا ٹیکس تنخواہ دار طبقے نے ہی دینا ہے تو حکومت باقیوں کا کیا کرے؟ اگر ٹیکس دینے والا محض تنخواہ دار آدمی ہے تو یقین مانیں مہنگائی میں بھی وہی تنخواہ دار آدمی ہی پس رہا ہے۔ سب سے زیادہ پریشان بھی تنخواہ دار شخص ہے۔ جس کی آمدنی وہیں کی وہیں ہے جب کہ اخراجات میں حالیہ دنوں میں دگنا اضافہ ہو چکا ہے۔ آپ آج بھی ریسٹورنٹ میں چلے جائیں، ہر ریسٹورنٹ افطار پارٹیوں کی وجہ سے ’’ہاؤس فل‘‘ ہو گا یعنی اس مہنگائی سے اپر کلاس کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ اگر کسی کو فرق پڑا ہے تو وہ یا تو تنخواہ دار طبقہ ہے یا عام آدمی ہے۔
اس لیے جب وہ اپنی بیٹی کو کسی مہنگے پرائیویٹ اسکول میں اپنا پیٹ کاٹ کر اور خوشامد کر کے ہی داخل کرواتا ہے تو مفت، لازمی اور معیاری تعلیم کی آئینی پابند حکومت کو اُس سے ٹیکس لینے کا کیا حق؟ ہاں میں خود جا کے ٹیکس کا گوشوارہ بھروں اگر یقین ہو کہ میرے چچا کا قاتل پکڑا گیا تو پولیس بھی اسے عدالتی غیظ و غضب سے نہیں بچا پائے گی۔ الغرض ٹیکس نہ دینے کی ریت روایت آج کی نہیں پرانی ہے۔ ہمارے سابق حکمران کاروباری شخصیات کو کسی طرح بھی ٹیکس دینے کے حوالے سے قائل نہ کرسکے۔
مجھے یاد ہے کہ نواز شریف کے دوسرے دور یعنی 1997ء میں بھی یہی مسئلہ تھا کہ عوام ٹیکس ادا نہیں کرتے، اُس وقت اسحاق ڈار نے اپنے قائد نواز شریف سے سہمے سہمے انداز میں ایک لمبی چوڑی مشق کے بعد نتیجہ نکالا کہ پاکستان کی بیشتر صنعتیں اور تمام بڑے کاشتکار ٹیکس نہیں دیتے۔ اس کے بعد فیکٹریوں کے دورے ہوئے، فہرستیں بنیں اور پھر مذاکرات کا مرحلہ شروع ہوا۔زرعی ٹیکس کے لیے زمینوں کی زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم حدود پر بحث شروع ہوئی، بڑے زمینداروں نے نئے کاغذ بنانا شروع کر دیے اور زرعی اراضی کا سروے شروع کیا گیا کہ کتنا ٹیکس اکٹھا کرنے کی گنجائش ہے۔
حسب توقع صنعتکاروں نے ٹیکس بڑھانے اور نئے ٹیکسز دینے سے انکار کیا، زمینداروں کی فصلیں خراب پیداوار دینے لگیں۔ بات بڑھی تو صنعتکار اور تاجر وزیراعظم تک جا پہنچے اور سابق وزیر اعظم چونکہ خود بھی کاروباری تھے۔ اس لیے انھوں نے ’’بریک‘‘ لگا دی اور پھر فوجی بغاوت کے بعد نواز شریف کی حکومت ختم کر دی گئی۔ یہ بحث چلتی رہی۔ جنرل پرویز مشرف نے تو اس بحث میں ایک نئی جان پھونک دی۔ انھوں نے ڈنڈا لہراتے ہوئے کہا کہ جو لوگ ٹیکس نہیں دیتے ان کے لیے اس ملک میں جگہ نہیں۔ایک بار پھر اصلاحات کا ایجنڈا تیار ہوا۔ جنرل پرویز مشرف کو پتہ چلا کہ پاکستان میں 80 فیصد سے زائد کاروبار تو زبانی کلامی چلتا ہے۔
یعنی لین دین کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں۔ تو انھوں نے ’معیشت کی دستاویز بندی‘ کی مہم کا اعلان کیا۔اس مہم کا مقصد صرف یہ تھا کہ ہر کاروباری اپنے آپ کو حکومت کے پاس رجسٹر کروا لے چاہے وہ ٹیکس دے یا نہ دے۔ وزیر خزانہ شوکت عزیز نے چاروں صوبوں میں گھوم پھر کر کاروباری اور تاجر طبقے سے ملاقاتیں کیں اور انھیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ ٹیکس نہیں مانگ رہے مگر صرف اتنا چاہ رہے ہیں کہ کاروبار کو ریکارڈ پر لے آئیں۔اب اگر اتنے بھولے ہوں تو کاروباری کاہے کے؟ تاجروں نے جنرل مشرف کے اس ’’جھانسے‘‘ میں آنے سے انکار کر دیا اور وہ فارم سر عام نذر آتش کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا جو حکومت نے انھیں اس حکم کے ساتھ بھیجے تھے کہ انھیں پر نہ کرنا قابل دست اندازی پولیس جرم ہو گا۔
تاجروں اور کاروباریوں نے یہ جرم ڈنکے کی چوٹ پر کیا۔ انھوں نے نہ صرف ایف بی آر کے ساتھ رجسٹر ہونے سے انکار کیا بلکہ ملک بھر میں ہڑتال اور مظاہرے شروع کر دیے۔ حالات اتنے خراب ہوئے کہ جنرل پرویز مشرف نے ’معیشت کی دستاویز بندی‘ کا عمل معطل کر دیا جو آخری خبریں آنے تک زیر التوا ہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے بھی اصلاحاتی ایجنڈے پر بحث شروع کی لیکن یہ بحث وزاتِ خزانہ کی راہداریوں سے باہر ہی نہیں نکل سکی ۔ نواز شریف کی تیسری حکومت میں ٹیکس کے نظام میں بہت نمایاں تبدیلی لائی گئیں۔ ٹیکس کی شرح کم کی گئی اس امید کے ساتھ کہ نئے ٹیکس دینے والے ٹیکس نیٹ میں شامل ہوں گے۔ مگر عملاََ ایسا کچھ نہ ہو سکا۔ اور قرضوں پر ہی اکتفاء کیا گیا اور اس دور میں ریکارڈ 40 ارب ڈالر کے قرضے لیے گئے۔ افتخار عارف یاد آ رہے ہیں:
جیسی لگی تھی دل میں آگ ویسی غزل بنی نہیں
لہٰذا پورا معاشرہ نفسانفسی کا شکار ہوگیا۔کرپشن کا بازار گرم گیا، سیاستدان خود ٹیکس ادا نہیں کرتے تھے تو عوام نے بھی نظرانداز کردیا۔ ایک دوسرے کامقابلہ ہوتا رہا کہ کون کتنے کھرب کھا چکا ہے اور خود کو مظلوم بتا رہا ہے۔ لہٰذاجو کام دو دہائیوں یا شائد اس سے بھی زیادہ مدت میں نہیں ہو سکا، وہ اب کیوں کر ہو سکے گا؟ بہت سوں کو امید ہے کہ ایسا ممکن ہے۔ اس لیے ممکن ہے کہ عمران خان کی سیاسی مجبوریاں سابق حکمرانوں کی نسبت بہت کم ہیں۔ اورعمران خان اور اُن کی معاشی ٹیم کے لیے خوشخبری یہ ہے ان برے حالات میں ان میں معمولی بہتری بھی بہت نمایاں فرق لا سکتی ہے اور عمران خان کو بس یہ معمولی سی بہتری لانی ہے۔ جو کچھ ایسی ناممکن بھی نہیں ہے۔