لاہور(ویب ڈیسک)ہمارے ہاں دلہنوں کا عروسی لباس کئی رنگوں سے آراستہ ہوتا ہے لیکن اگر آپ مغربی معاشرے کی جانب نظر دوڑائیں تو آپ کو وہاں شادی کے موقع پر ہر دلہن صرف سفید رنگ کا ہی عروسی لباس پہنے دکھائی دے گی- کیا آپ جانتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اگر نہیں تو آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں- بعض افراد اس سفید رنگ کے عروسی لباس کو دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ شاید عیسائی مذہب کا حصہ ہے اور اسے پاکیزگی کی علامت سمجھا جاتا ہے٬ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے- درحقیقت اٹھارویں اور انیسویں سفید رنگ دولت اور عیش و عشرت کی علامت قرار دیا جاتا تھا کیونکہ اس وقت یہ رنگ صرف امراﺀ ہی استعمال کیا کرتے تھے- اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں کپڑے دھونے کا کوئی مناسب طریقہ موجود نہیں تھا اور ہر کوئی کپڑے دھونے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا-ایسے میں لوگ رنگ برنگے کپڑے پہنا کرتے تھے تاکہ اگر میلے ہوں بھی تو ان پر لگے داغ واضح نہ ہوں اور کپڑوں کو بغیر دھوئے مزید کچھ دن گزاریں جاسکیں-اس کے برعکس سفید رنگ کے کپڑوں پر لگا ہلکا سا داغ بھی کچھ زیادہ ہی نمایاں ہوجاتا ہے- اس لیے ماضی میں سفید رنگ کے کپڑے صرف امیر ترین افراد یا ان کی دلہنیں اس رنگ کا عروسی لباس ہی استعمال کیا کرتی تھیں جو کہ شاہانہ طرزِ زندگی کی جانب اشارہ ہوتا تھا- وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ روایت عام ہوتی چلی گئی اور معاشرے میں اس حد تک سرایت کر گئی کہ مغربی دلہنوں کا سفید رنگ کا عروسی لباس ان کی ثقافت کا ہی حصہ بن گیا-ٓپ نے سنا ہوگا کہ آنکھ پھڑکنا کچھ اچھا یا برا ہونے کی نشانی ہے۔اب یہ توہم پرستی ہے یا درست، اس بحث کو چھوڑیں، بس یہ جان لیں کہ آنکھ پھڑکنے کی وجہ کیا ہوتی ہے۔درحقیقت عام طور پر آنکھ پھڑکنا ہوسکتا ہے کہ ذہنی طور پر پریشانی کا باعث بنے مگر یہ کسی بیماری کے بجائے طرز زندگی، ایک وجہ ہوسکتی ہے۔طبی ماہرین کے مطابق آج کل لوگ اپنا بہت زیادہ وقت کمپیوٹر یا فون کی اسکرین کے سامنے گزارنے کے عادی ہوتے ہیں۔اور اس عادت کے نتیجے میں آنکھوں پر دباؤ بڑھتا ہے یا وہ خشک ہونےہے۔تاہم ایسا ہونے پر آنکھ پھڑکنے کے امکان بھی بڑھتے ہیں۔اسکرینوں سے ہٹ کر بہت تیز روشنی میں رہنا، آنکھ کی سطح یا اندرونی حصے میں خارش، جسمانی دباؤ، تمباکو نوشی، ذہنی تناؤ اور تیز ہوا کے نتیجے میں آنکھ پھڑکنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔اگر آنکھ کی اس حرکت سے پریشان ہیں تو آنکھوں کو کچھ وقت تک آرام دیں۔اگر ممکن ہو تو اپنے سے کچھ دیر کے لیے وقفہ کریں اور شام میں ایسی سرگرمیوں کو اپنائیں، جس میں اسکرینوغیرہ کا کوئی دخل نہ ہو۔بہت کم ایسا ہوتا ہے جب آنکھ پھڑکنا کسی عارضے کی نشانی ہو اور وہ بھی اس وقت جب مناسب آرام اور اسکرین وغیرہ سے دوری کے باوجود یہ سلسلہ برقرار رہے۔